اس مرتبہ کے امریکی انتخابات میں بہت کچھ ایسا ہوا جو ہم پاکستانیوں کو اپنا اپنا سا لگا۔ ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نتائج سے پہلے ہی ایک متنازع خطاب کے ذریعے اپنی جیت کے اعلان نے 2013 کے پاکستانی انتخابات کی یاد تازہ کر دی جب نواز شریف اور شہباز شریف نے رات 10 بجے ہی اپنے گھر کی بالکونی سے خطاب کر کے وزیر اعظم اور وزیر اعلی بننے کا اعلان کر دیا تھا۔ دوسری طرف نتائج اکٹھا کرنے والے سسٹم میں خرابی نے اپنا 2018 والاآر ٹی ایس یاد کرا دیا جو انتخابات کی رات جواب دے گیا تھا۔ صرف یہی نہیں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخالفین پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے انتخابات کو امریکی عوام کے ساتھ فراڈ قرار دے دیاجس پر پورے امریکہ میں زور و شور سے بحث جاری ہے۔
اگرچہ امریکہ کی مختلف تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق ڈاک کے ذریعے ووٹنگ میں فراڈکا امکان 0.0009فیصد سے زیادہ نہیں، پھر بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو لگتاہے کہ ان کے ساتھ ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کے عمل میں دھاندلی کی جا رہی ہے حالانکہ ان کے خیال میں وہ انتخاب جیت چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے بعد پینسلوینیا کے گورنر ٹام وولف نے ٹویٹ بھی کی کہ ان کی ریاست میں دس لاکھ پوسٹل ووٹ گننا باقی ہیں اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ سارا عمل شفاف طریقے سے مکمل ہو گا، لیکن کوئی یقین دہانی ڈونلڈ ٹرمپ کو پرسکون نہ کر سکی۔ ڈیمو کریٹس کو تو چھوڑیے، خود بہت سے ریپبلکن رہنمائوں اور سابق گورنرز نے ڈونلڈ ٹرمپ کی قبل از وقت تقریر اور پوسٹل ووٹنگ کو فراڈ قرار دینے کے عمل کی شدید الفاظ میں مزمت کی۔ ان کا خیال تھا کہ ایسے بیانات سے امریکی انتخابات کی ساکھ متاثر ہوگی۔
امریکی انتخابات عام طور پر پرسکون اور پر امن ماحول میں ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ تو گھروں میں بیٹھ کر ہی انتخاب میں حصہ لے لیتے ہیں اور انہیں کسی قسم کی لائینوں میں لگنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہاں نہ تو ہوائی فائرنگ ہوتی ہے نہ لڑائی جھگڑے کے باعث پولنگ روکنا پڑتی ہے، لیکن اس مرتبہ واقعی کچھ مختلف تھا۔ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے فورابعد امریکہ کی مختلف ریاستوں میں پُر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے، کہیں ٹرمپ کے حامی سڑکوں پر تھے تو کہیں جو بائیڈن کے۔ کہیں کہیں تو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ تک کرنا پڑی۔ مظاہرین نے اپنے مخالفین کے لیے جو نعرے لگائے وہ دھمکی آمیز تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ"اگر ہمیں انصاف نہ ملا تو انہیں چین نہیں ملے گا"۔
نتیجہ کچھ بھی ہو امریکی انتخابات بحرحال تنازع کا شکار ہو چکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں گنتی رکوانے اور نتائج جاری کرنے سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا۔ اگر ایسا ہوا تو نتائج سامنے آنے میں کئی دن لگ جائیں گے اور امریکی انتخابات کے نتائج کا کئی دن تک روکے جانا کشیدگی میں اضافہ کرے گا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نتائج میں تاخیر کی وجہ پوسٹل ووٹوں کی گنتی ہے اور یہی وہ عمل ہے جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے تحفظات کا اظہاربھی کیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان مقابلہ اتنا کانٹے کا ہے کہ کوئی بھی جیت سکتا ہے اور جو عنصرکسی ایک امیدوار کی جیت یا ہار کا باعث بنے گا وہ پوسٹل ووٹنگ ہو سکتا ہے۔ امریکی انتظامیہ خطرے کی بُو محسوس کر رہی ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ہار گئے تو وہ ناصرف نتائج کو ماننے اور وائٹ ہائوس چھوڑنے سے انکار کر دیں گے بلکہ امریکہ میں پر تشدد مظاہرے بھی ہو سکتے ہیں۔ امریکی ادارے اندازہ لگانے میں لگے ہیں کہ ٹرمپ کی ہار کے نتیجے میں بد امنی کی شدت کتنی ہو گی اور کن کن علاقوں میں ہو گی۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اس بار اقتدار کی منتقلی پر امن طریقے سے نہیں ہو پائے گی۔
سوال یہ ہے کہ امریکی انتخابات میں وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل کتنا ہوتا ہے؟ کیا عوام کے علاوہ بھی کوئی طاقت ہے جو چاہتی ہے کہ ٹرمپ دوبارہ صدر نہ بنیں؟ ڈونلڈ ٹرمپ کا عوام کے ساتھ فراڈ کرنے کا الزام ڈیمو کریٹ امیدوار جو بائیڈ ن پر ہے یا کسی اور پر؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کئی پہلووں کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔
امریکی انتخابات کو پاکستان اور بھارت کی علاقائی ریاست کے ساتھ بھی ملا کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مثلا زیادہ تر پاکستانی چاہتے ہیں کہ ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب نہ ہوں تو دوسری طرف بھارتی ٹرمپ کے حق میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ واضح طور پر ٹرمپ کی پالیسزہیں۔ پچھلے دنوں وائٹ ہائوس میں شہریت دینے کی ایک تقریب میں پانچ نئے امریکی شامل تھے، جن میں ایک بھارتی سافٹ وئیر ڈویلپر سدھا سنداری بھی تھیں۔ امریکہ کی نئی امیگریشن پالیسی بھارتیوں کے لیے نہایت سازگار ہے۔ امریکہ بھارت سے ٹیکنالوجی کے شعبے میں مہارت رکھنے والے لوگوں کو امریکہ بلواتا ہے، ایسے لوگ ایچ بی ون ویزے پر امریکہ جاتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے میں امریکی شہری بن جاتے ہیں۔ بھارتیوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی ڈونلڈ ٹرمپ کی اس دانستہ کوشش نے بھارتی عوام اور امریکہ میں رہنے والے بھارتیوں کو خوب لبھایا ہے۔ بھارتی حکومت کے ساتھ امریکہ کے سٹریٹیجک معاہدے اور مفادات اس کے علاوہ ہیں۔ دوسری جانب امریکہ میں پچیس سال سے مقیم ایک کاروباری پاکستانی سے میری کچھ دن پہلے فون پر بات ہو رہی تھی، انہوں نے کہا اگر ٹرمپ الیکشن جیت گیا تو میں اپنا سامان سمیٹ کر پاکستان واپس آ رہا ہوں۔
پاکستانیوں اور مسلمانوں کے لیے تو چھوڑیے خود امریکی یہ سمجھتے اور جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک متعصب شخص ہیں۔ انہیں ناپسند کرنے والے بھی اسی بنیاد پر نا پسند کرتے ہیں اور ان کی حمایت کرنے والے بھی انہیں اسی وجہ سے ووٹ دیتے ہیں، ٹرمپ کے حمایتیوں کا ماننا ہے کہ ان کا متعصب ہوناامریکہ اور امریکیوں کے مفاد میں ہے۔ حالانکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ان پالیسیوں نے ابھی تک امریکہ کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچایا مگر اس کے باوجود اس بار کے انتخابات میں بھی انہوں نے یہی نعرہ بیچا ہے۔ یہ نعرہ کتنے لوگوں نے خریدا ہے، اس کے لیے ابھی تھوڑا سا انتظار مزید کرنا ہوگا۔