صاف نظر آتا ہے وفاقی حکومت کی پوری توجہ شہباز شریف پر ہے، شاید حکومتی سیاسی ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال موجود ہے کہ نواز شریف اور مریم کے بعد اگر شہباز شریف کو بھی اگلے الیکشن سے باہر کر دیاجائے تو پارٹی لاوارث ہو جائے گی اور اگلا الیکشن آسان ہو جائے گا۔ یوں بھی آئے روز شہباز شریف کی راولپنڈی میں اہم ملاقاتوں کی افواہیں پھیلی رہتی ہیں، جس سے حکومت ِوقت کو تشویش ہونا فطری بات ہے۔ لہذا تحریک انصاف کو لگتا ہے وہ اگر شہباز شریف کو نا اہل کرانے میں کامیاب ہو گئی، تو اس کے لیے آسانی ہو جائے گی۔
اس مقصد کے لیے شہباز شریف پر چاروں طرف سے شکنجہ تیار کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ فواد چودھری بہت دن سے کہہ رہے ہیں وہ شہباز شریف کے خلاف لاہور ہائیکورٹ جا رہے ہیں تاکہ ان سے نواز شریف کی گارنٹی کا حساب لیا جا سکے۔ حکومت چاہتی ہے شہباز شریف کو فراڈ کے الزام میں دھر لیا جائے کہ انہوں نے اپنے بھائی کو فرار کرانے میں مدد کی اور پھر واپس لے کر نہ آئے۔ بہت دن سے شہباز شریف کے خلاف عدالت جانے کے اعلانات ہو رہے تھے مگر پھر حکومتی قانونی ٹیم نے ایک اور فیصلہ کیا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے پنجاب حکومت کو خط لکھا ہے کہ ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے اور نواز شریف کی طرف سے عدالتی حکم کے مطابق ہر مہینے جمع کرائی جانے والی میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لیا جائے کہ ان کی طبیعت میں اب کتنی بہتری آئی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے اگر میڈیکل بورڈ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ نواز شریف کو اس وقت کوئی جان لیوا عارضہ لاحق نہیں ہے اور وہ معمول کی ادویات لے رہے ہیں تو عدالت کے سامنے درخواست لے کر جائیں کہ چونکہ انہیں علاج کے لیے جانے کی مشروط اجازت دی گئی تھی اور اب وہ صحت یاب ہو چکے ہیں، لہذا انہیں فیصلے کے مطابق واپس آ کر خود کو قانون کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
بظاہر یہ مشق نواز شریف کو واپس لانے کے لیے نہیں شہباز شریف پر دبائو بڑھانے کے لیے ہے۔ اطلاعات کے مطابق نواز شریف نے پچھلے سال اگست کے بعد اپنی کوئی تازہ میڈیکل رپورٹس جمع نہیں کرائیں، حالانکہ فیصلے کے مطابق انہیں ہر مہینے اپنی رپورٹس جمع کرانی تھیں اور پنجاب حکومت کی میڈیکل ٹیم نے ان کا جائزہ لینا تھا۔ حکومت یہ تمام نکات اس درخواست کے لیے جمع کر رہی ہے جو فواد چودھری کے مطابق وہ لاہور ہائیکورٹ میں لے جانے والے ہیں۔ ایسا لگتا ہے میڈیکل بورڈ بنانے کی استدعا بھی اس درخواست کو مضبوط بنانے کے لیے کی گئی ہے۔
دوسری طرف شہباز شریف کے خلاف ایف آئی اے نے تحقیقات تیز کر دی ہیں۔ چند ہفتے پہلے ایف آئی اے کی طرف سے 64 صفحات اور چار ہزار دستاویزات پر مشتمل ایک چالان بھی عدالت میں جمع کرایا گیا ہے۔ ادھر ڈی جی نیب لاہور شہزاد سلیم کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے، ذرائع کے مطابق ان پر بھی چارج شیٹ یہی ہے کہ وہ تین سال گزرنے کے باوجود شہباز شریف کا کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکے اور ذرائع کے مطابق نئے ڈی جی نیب کو شہباز شریف ہی کا ٹاسک دے کر لاہور بھیجا گیا ہے۔
ادھر اپنے گرد گھیرا تنگ کرنے کی حکومتی کوششوں کو تیز ہوتا دیکھ کر شہباز شریف نے بھی ایف آئی اے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کا رخ کر لیا ہے۔ اگرچہ گزشتہ روز ان کی پہلی درخواست مسترد کر دی گئی ہے لیکن وہ نئی درخواست کے ساتھ دوبارہ ہائیکورٹ کے پاس آئیں گے۔ حالیہ درخواست میں شہباز شریف نے موقف اختیار کیا کہ ایف آئی اے نے ان پر وہی کیس دوبارہ بنا دیا ہے جو نیب پہلے ہی بنا چکی ہے۔ لہذا ایف آئی اے کی ایف آئی آر خارج کر کے کیس کو ختم کر دیا جائے۔ شہباز شریف کا موقف تھا کہ ایک ہی جرم کے الزام میں ایک سے زیادہ ادارے اپنے اپنے الگ الگ کیسز نہیں چلا سکتے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے درخواست پر اپنے رد عمل میں ریمارکس دیے کہ صرف ایف آئی اے کے خلاف لائی گئی درخواست کے مطابق ایف آئی آر کو کیسے خارج کیا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے سامنے نیب اور ایف آئی اے کے کیسز کا موازنہ ہی موجود نہیں اور نہ ہی درخواست گزار نے موازنے کی درخواست کی ہے۔ اس تکنیکی نکتے کو سمجھتے ہوئے درخواست کو مسترد ہوتا دیکھ امجد پرویز نے عدالت سے اپنی درخواست واپس لینے کی درخواست کر دی۔ جسے منظور کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ نے واپس لینے کی بنیاد پر درخواست مسترد کر دی۔
اب لگتا یہ ہے کہ آئندہ چند دن میں لاہور ہائیکورٹ کے سامنے شہباز شریف سے متعلق دو کیسز ہوں گے، ایک میں شہباز شریف دونوں کیسز کو موازنہ پیش کرتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے دونوں الزامات کو ایک سا قرار دے کر ایف آئی اے کے کیس کو ختم کرنے کی استدعا کریں گے۔ جبکہ دوسری جانب حکومت نواز شریف کے معاملے میں گارنٹی دینے والے شہباز شریف کے خلاف بھائی کو فرار کروا کر واپس نہ لانے اور عدالت سے غلط بیانی کے الزام میں کارروائی کا مطالبہ کرے گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شہباز شریف 265-K کے تحت بریت ہی کی درخواست دائر کر دیں جس سے کیس اور لٹک جائے گا۔
ایسا لگتا ہے اپوزیشن کے لیے حکومت کی سیاست اب شہباز شریف کے گرد گھوم رہی ہے۔ شہباز شریف شاید تحریک انصاف کو اپنے لیے خطرہ دکھائی دیتے ہیں یا وہ سمجھتی ہے اگر انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا تو 2023ء کے لیے سیاسی راستہ صاف ہو جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے اس عدالتی محاذ پر کسے شکست ہوتی ہے اور کون فتح سے ہمکنار ہوتا ہے۔ آنے والے چند دن انتہائی اہم ہوں گے۔