بلاول بھٹو زرداری کے کاندھوں پر بوجھ بہت زیادہ ہے۔ اپنے نانا اور والدہ کے بڑے ناموں کا بوجھ، اپنے والد اور ان کے ساتھیوں پر لگے کرپشن کے شدید الزاما ت کا بوجھ، اپنے بڑوں کی طرف سے کارکردگی نہ دکھانے کا بوجھ، سندھ کے غریب عوام کی پسماندگی کا بوجھ، ان توقعات کا بوجھ جو پیپلز پارٹی کے کارکنان اور سندھ کے عوام ان سے رکھتے ہیں۔ آخر ایک شخص تنہا کتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔
آصف زرداری اپنی صحت کے باعث سیاست سے تقریبا آئوٹ ہو چکے ہیں۔ بلاول اپنے خاندان کی طرف سے اس میدان میں تنہا رہ گئے ہیں۔ بلاول کا بوجھ بانٹنے یا ان کا وزن بڑھانے کے لیے اس وقت ایک ایسے عنصر کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو پارٹی کی سیاسی جدوجہد کو ایک قدم آگے لے جانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ لہذا آصفہ بھٹو کو سیاسی میدان میں اتارا جا رہا ہے۔ اس سے پارٹی کو ایک ایسے وقت میں مزید توانائی مل سکتی ہے جب بلاول اکیلے ہی پارٹی کو متحرک کرنے میں کوشاں اور کسی حد تک کامیا ب بھی ہیں۔
آصفہ بھٹو زرداری کواس موقع پر لانچ کرنے کی کئی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ مریم بھی ہو سکتی ہیں۔ مریم نواز سے پہلے پاکستان میں صرف ایک ہی خاتون سیاستدان نے خوب عروج پایا تھا اور وہ تھیں بے نظیر بھٹو۔ مریم نواز کے سیاست میں آنے سے پہلے بطور خاتون سیاستدان بے نظیر بھٹو کا نام بلا شرکت غیرے پاکستان کی سیاسی فضائوں میں گونجتا رہا۔ اب کچھ عرصہ پہلے مریم نواز اس خلا کو پُر کرنے کے لیے میدان میں آ گئیں، یا یوں کہیے کہ ان کے آنے سے بے نظیر کا کوئی ہمسر ظاہر ہونے کا امکان ظاہر پیدا لگا۔ پیپلز پارٹی کے پیش نظر یہ بات ضرور ہو گی کہ بے نظیر بھٹو کے بعد پیدا ہونے والا سیاسی خلا بختاور یا آصفہ بھٹو کو پُر کرنا چاہیے تھا، مریم نواز یہ جگہ کیوں لے رہی ہیں۔ لہذا آصفہ بھٹو کو سیاست میں لانے کا بروقت فیصلہ کر لیا گیا۔
آصفہ بھٹو کو لانچ کرنے کی تیسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگلے الیکشن سے پہلے ان کی سیاسی ٹریننگ ہو جائے، بالکل ایسے ہی بلاول بھٹو زرداری نے بھی الیکشن لڑنے سے کچھ سال قبل ہی کراچی میں مختلف تقریبات سے خطاب شروع کر دیا تھا۔ کبھی وہ انکل الطاف کو للکارتے نظر آتے تھے تو کبھی انکل عمران کو۔ یوں الیکشن سے تین سال قبل ہی ان کی سیاسی ٹریننگ کا بھی آغاز ہو گیا تھا۔ آصفہ بھٹو کو لانچ کرنے والوں کے ذہن میں اگلے الیکشن سے پہلے ان کی ٹریننگ کا یہ پہلو بھی ضرور موجود ہو گا۔
کورونا میں مبتلا ہو جانے کے باعث بلاول کی غیر حاضری بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ اگرچہ بلاول نے کوئیٹہ جلسے میں بھی براہ راست شرکت نہیں کی تھی اور وڈیو لنک کے ذریعے ہی جلسے سے خطاب کیا تھا لیکن تب فرق یہ تھا کہ پیپلز پارٹی اس جلسے کی میزبان نہیں تھی۔ اب ملتان جلسہ ایک تو پیپلز پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر ہو رہا ہے، دوسرا پیپلز پارٹی اس جلسے کی میزبان بھی ہے ایسے میں اعلی قیادت کی غیر حاضری اچھا تاثر نہیں چھوڑنے والی تھی۔ لہذا پیپلز پارٹی نے یہی فیصلہ کیا ہو گاکہ خاندان میں سے کسی ایک کو تو ضرور اس اہم جلسے میں شرکت کرنی چاہیے۔
اس ساری کوشش کے نتیجے میں کچھ سنجیدہ سوال بحرحال پیدا ہو رہے ہیں۔ آصفہ بھٹو کے پاس ایسا کرنے کو کیا ہے جس سے پیپلز پارٹی کو طاقت مل سکے۔ فی الوقت وہ جلسوں میں غور سے سنی جائیں گی، ان کے لب و لہجے اور اندازِ تقریر پر تبصرے ہوں گے، پھر کسی کی کوشش ہو گی ان کا انٹرویو بھی کرے جس سے ان کے خیالات سے مزید آگاہی ہو سکے، پھر وہ پریس کانفرنسز میں لوگوں کے سوالوں کے جواب دینے کا ہنر سیکھیں گی اس کے بعد زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا، یہی کہ وہ اگلے الیکشن میں ایک ایسے حلقے سے کھڑی کر دی جائیں جہاں سے کسی کو بھی ٹکٹ دے دیا جائے تو وہ جیت جائے گا۔ اس سے بڑھ کر وہ کیا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
کیا ان کے پاس سندھ کی خوشحالی کا کوئی فارمولہ ہے، کیا ان کے پاس کوئی ایسا بیانیہ ہو گا جو ان کے والد پر لگے کرپشن کے الزامات کو دھو سکے، جن الزامات کا اثر بلاول زائل نہ کر سکے وہاں آصفہ کے پاس کتنی گنجائش ہو گی۔ کیا آصفہ کے پاس سندھ کے لیے کوئی ایسا ہنگامی منصوبہ موجود ہے جو جادو کی طرح کام کرے اور پھر وہ جادو سر چڑھ کر پورے ملک میں پھیلنے لگے۔
آصفہ بھٹو ایک مشکل میدان میں قدم رکھ رہی ہیں۔ اہداف انہیں طے کرنے ہوں گے، مقصد انہیں سامنے رکھنا ہو گا۔ وہ ایک ایسے میدان میں قدم رکھ رہی ہیں جہاں تحسین سے زیادہ گالیوں کا سامنا کرناپڑتا ہے، جہاں سوشل میڈیا کردار کشی کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے، جہاں اچھا پرفارم کرنے کے سوا دوسرا کوئی راستہ ہی نہیں۔ جہاں اگر ان کے پاس کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں تو وہ سحر طاری نہیں کر سکیں گی۔ وہ ایک ایسے میدان میں قدم رکھ رہی ہیں جہاں انہیں ہر پل اپنے والد کی مبینہ کرپشن پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دینا ہو گا، جہاں انہیں جعلی اکائونٹس کی سائنس کو سمجھنا ہو گا۔
آصفہ بھٹو کو سمجھنا ہو گا کہ اگر لوگوں کی توقعات پر پوری نہ اتریں تو انہیں مسترد کیا جا سکتا ہے، مسترد کیا جانا ان کے لیے بہت بوجھل ہو گا۔ لہذا بہتر یہی ہے وہ پوری تیاری کے ساتھ میدان میں آئیں اور تیرہ سالہ ماضی کی کارکردگی، کرپشن اورنااہلی سے متعلق اٹھائے جانے والوں سوالوں کے جواب یاد کر کے آئیں۔