اگرچہ بہت بحث ہو چکی، لڑائی جھگڑا بھی جاری ہے مگر سنجیدہ بحث کی گنجائش اب بھی باقی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین موجودہ حکومت کی اچھی کاوش ضرور ہے مگراس میں موجود زیادہ سے زیادہ خامیوں کو دور کر کے اسے مزید مفید بنایا جا سکتا ہے۔ کچھ تحفظات الیکشن کمیشن نے ظاہر کیے ہیں، کچھ اعتراضات اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے ہیں اور کچھ سوالات عوام کے ہیں۔ آئیے ایک تجزیہ کر لیتے ہیں کہ اس مشین پہ اٹھنے والے اعتراضات کیا ہیں اور کن خامیوں کو دور کیا جانا ضروری ہے۔
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے حوالے سے اٹھنے والا سب سے اہم سوال ووٹر ویری فیکیشن یا بائیو میٹرک ویری فیکیشن کا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ انتخابات میں شفافیت تب لائی جا سکتی ہے جب مشین ووٹر کو بائیو میٹرک کے ذریعے شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوتاکہ ووٹ بھگتانے کے راستے کو روکا جا سکے۔ اگر مشین میں یہ اہلیت پیدا کر دی جاتی ہے تو سب سے بڑا مسئلہ65سال سے بڑی عمر اور مزدوری کرنے والے ووٹرز کی شناخت کا ہو گا جن کے انگوٹھوں کے نشان تبدیل ہوجانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے میں مشین کو بائیومیٹرک کی ذمہ داری سونپی ہی نہیں گئی۔ اس کام کے لیے پرانا طریقہ ہی استعمال ہو گا۔ عملہ لسٹوں میں دیکھ کر ووٹر کے صحیح ہونے کی تصدیق کرے گا اور تصدیق شدہ ووٹر مشین سے اپنا ووٹ کاسٹ کرے گا۔ ایسا کرنے سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوگا کہ مشین کی افادیت کم ہو جائے گی اور یہ صرف ایک کیلکولیٹر بن کے رہ جائے گی جس کی ذمہ داری ڈالے گئے ووٹوں کو جمع کر کے فورا نتائج کا اعلان کرنا ہوگا۔
اپوزیشن کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ کیسے تصدیق ہو گی کہ مشین شام پانچ بجے ڈالے گئے ووٹوں کو جمع کر کے جو نتیجہ دے رہی ہے، وہ صحیح ہے اور وہ پہلے سے فیڈ شدہ نہیں ہے۔ اپوزیشن کو لگتا ہے حکومت چند حلقوں پر مشین میں پہلے سے اپنی مرضی کا ایک نتیجہ فیڈ کر سکتی ہے جو کسی بھی پارٹی کو ڈالے گئے، ووٹوں سے قطع نظر وہی نتیجہ جاری کر دے گی جو اسے دیا گیا ہو گا۔ اپوزیشن کے پاس اس نتیجے کو چیلنج کرنے کا ایک ہی راستہ ہو گا کہ وہ ٹریبونل میں جا کر مشین ہی کی جاری کردہ پرنٹڈ پرچیوں کو گننے کی درخواست کرے۔ وہ اعتراض جو الیکشن ٹریبیونل کے پاس چلا جاتا ہے اس کا فیصلہ جاری ہونے میں بعض اوقات مہنیوں لگ جاتے ہیں اور الیکشن میں بدمزگی کا عنصر شامل ہو جاتا ہے جس سے بچنے کے لیے ہی تومشین لائی جا رہی ہے۔ لہذا اپوزیشن کے اس خدشے کو دور کرنے کے لیے موثر جواب دینا ہو گا۔
ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا گیا تھا کہ مشین سے نکلنے والی پرچی پر چھپی تحریر کی عمر زیادہ نہیں، اگر یہ تحریر اے ٹی ایم مشین یا ڈیپارٹمنٹل سٹور سے نکلنے والی پرچی کی طرح چند ہفتوں میں مٹ گئی تو ٹریبیونل فیصلہ کیسے کریں گے۔ لیکن اس اعتراض کا جواب شبلی فراز صاحب کی طرف سے یہ دیا گیا ہے کہ ووٹوں کی پرچیوں پر لکھی گئی تحریر کی عمر کم ا زکم پانچ سال ہو گی۔ لہذا شبلی فراز صاحب کی طرف سے اس اعتراض کو رد کر دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی اٹھایا گیا تھا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد جب مشین سے بیلٹ بکس میں ڈالنے کے لیے تصدیقی پرچی باہر آئے گی اسے مشین آپریٹ کرنے کے لیے کھڑا عملے کا شخص بھی دیکھے گا جس سے ووٹ کی رازداری متاثر ہو گی اور یہ غیر آئینی عمل بھی ہوگا۔ اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی تھی کہ مشین سے پرچی باہر آنے کی بجائے براہ راست بیلٹ باکس میں جا گرے اور رازداری متاثر نہ ہو۔ مگر اس میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ووٹر خود کیسے تصدیق کرے گا کہ مشین نے اس کی جانب سے منتخب کیے گئے نشان کی پرنٹ شدہ پرچی ہی اسے دی ہے۔ لہذا دیکھنا یہ ہے کہ وزارت سائنس اس مسئلے کا تسلی بخش جواب کیا دیتی ہے۔
ایک مسئلہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے الگ الگ مشین درکار ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر دو مشینیں خواتین کی سائیڈ پر اور دو مشینیں مردوں کی سائیڈ پر درکار ہوں گی ہر پولنگ اسٹیشن پر ایک ایک بیک اپ مشین بھی رکھی جائے گی تاکہ خرابی کی صورت میں پولنگ کا عمل نہ رکے۔ یوں ایک پولنگ اسٹیشن پر آٹھ مشینیں درکار ہوں گی اگر ایک حلقے میں 350پولنگ اسٹیشن ہوں تو ڈھائی سے تین ہزار مشینیں درکار ہوں گی۔ یعنی پورے پاکستان میں شاید سات لاکھ سے زیادہ مشینوں کی ضرورت ہو گی۔ ایک مشین کی قیمت ساٹھ ہزار روپے کے قریب بتائی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے لاکھوں کی تعداد میں بنوائی جائیں تو کچھ فرق پڑ جائے لیکن پھر بھی انتخابی اخراجات کا تخمینہ 60 سے 70 ارب روپے لگایا جا رہا ہے۔ پچھلے انتخابات ہمیں 20 ارب روپے سے کم میں پڑے تھے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ 70 ارب روپے خرچ کرنے میں بھی ہرج نہیں اگر شفاف انتخابات پر سب کا اتفاق ہو جائے۔ لیکن اگر پیسے بھی بے تحاشا خرچ ہوں، دھاندلی کا شور بھی ختم نہ ہو تومشین کا تردد کرنے سے کیا حاصل؟
ماہرین کا خیال ہے کہ جن ممالک میں اس مشین کا استعمال عمل میں لایا گیا ہے وہاں مرحلہ وار طریقے سے ایسا کیا گیا ہے لیکن حکومت پورے پاکستان میں یہ تجربہ کرنا چاہتی ہے جو بہت رسکی ہوگا۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ کیا کوئی کمپنی دو سال کے عرصے میں سات لاکھ مشینیں بنا کے دے بھی سکتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اگر دو سال بعد الیکشن کرانے ہیں اور آج سے مشینیں تیار کرنی شروع کی جائیں تو روزانہ 758 مشینیں تیار کرنی ہو ں گی تب دو سال یعنی 730 دن کے بعد اس مشین پر انتخابات ہو سکیں گے۔
حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج تمام جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے تاکہ 2023 کے انتخابی نتائج پر سب جماعتوں کا اتفاق ہو اور اگلے پانچ سال تک دھاندلی دھاندلی کا شور نہ مچتا رہے۔