تین دن ہو گئے، عمران خان سمیت اب تک ایک بھی شخص نے فواد چودھری کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا کہ حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ کسی نے فواد چودھری کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا کہ عوام نے تحریک انصاف کو ہلکے پھلکے نٹ بولٹ تبدیل کرنے کے لیے منتخب نہیں کیا بلکہ نظام تبدیل کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ عمران خان سمیت کسی نے فواد چودھری کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا اور کرنے کی گنجائش بھی نہیں کہ موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح ایک روٹین کی حکومت بن کے رہ گئی ہے جو اب تک تبدیلی کے لیے کچھ نہ کر سکی۔
فواد چودھری کی جانب سے حکومت کی ناکامی کا اعتراف بھلے ہی تنقید کی زد میں ہے لیکن اب تک کی ناکامی کی جن چار وجوہات کی طرف انہوں نے اشارہ کیا اس کا بغور جائزہ نہ لینا دائمی ناکامی کی وجہ بن سکتا ہے۔ فواد چودھری کے تجزیے کے مطابق ناکامی کی تین وجوہات ہیں۔ ایک، سیاسی ٹیم کا آپس میں شدید اختلاف ہونااور اختلاف بھی اس حد تک کہ کور ٹیم کے ممبران ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کر کے انہیں گھر بھجوانے میں بھی کامیاب رہے۔ دو، سیاسی ٹیم کی جگہ ٹیکنوکریٹس کا کرسی سنبھال لینااور ان غیر سیاسی شخصیات کی عمران خان کے وژن کے ساتھ کمٹمنٹ کا نہ ہونا۔ تین، کمزور ترین شخصیات کو اعلی ترین عہدوں پر لگا دینا یہ سوچ کر کہ یہ ڈکٹیشن لے کر کام کریں گے اور تابعدار رہیں گے۔
سنا ہے عمران خان نے فواد چودھری کی جانب سے بیان کی گئی ان وجوہات کا جائزہ لیے بغیر انہیں ڈانٹ پلا دی۔ کابینہ اجلاس کی جو کہانی سامنے آئی اس میں عمران خان نے یہ تو کہا کہ آپ نے خبر بنانے کے لیے یہ باتیں کیوں کہیں، مگر یہ نہیں کہا کہ آپ نے جو کچھ کہا وہ سرا سر غلط ہے۔ عمران خان کو اگر فواد چودھری کی باتوں سے اختلاف ہوتا تو کہتے کہ ایک کامیاب ہوتی ہوئی حکومت کو ناکام کیوں کہا گیا۔ عمران خان کو چاہیے تھا فواد چودھری سے استفسار کرتے کہ انقلابی حکومت کوایک روٹین کی حکومت کیوں کہا گیا۔ مگر عمران خان نے صرف اتنا کہا کہ میڈیا میں جا کر بیان بازی کیوں کی۔
دیکھا جائے تو فواد چودھری کی ساری کی ساری چارج شیٹ عمران خان کے خلاف تھی۔ وزراء آپس میں لڑ بھڑ کر عمران خان کو ایک دوسرے کے خلاف قائل کرتے رہے تو ذمہ دار عمران خان تھے۔ لڑائی جھگڑوں سے اگر سیاسی خلا پیدا ہوا اوراس خلا کو غیر سیاسی لوگوں سے پُر کیا گیا تو ذمہ دار ٹیم لیڈر تھے۔ تابعدار رکھنے کے لیے اگر کمزور اور نا اہل شخصیات کو اعلی عہدوں پر لگایا گیا تو یہ براہ راست عمران خان صاحب کی غلطی تھی۔ یوں فواد چودھری نے ریفارمز نہ ہونے، تبدیلی کا آغاز نہ ہونے اور موجودہ حکومت کے ایک معمول کی حکومت ہونے کی ساری ذمہ داری ٹیم لیڈر پر ڈال دی اور یہ کہہ بھی دیا کہ ٹیم تو بہرحال ٹیم لیڈر نے بنانی ہوتی ہے۔
صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے فواد چودھری کی گفتگو پر ردعمل دینے کے لیے جن الفاظ کا استعمال کیا کوئی اس کی بھی مذمت کرے گا کیا؟ گویا اطلاعات کے وزیر کے پاس مناسب الفاظ کا ذخیرہ اتنا محدود ہے کہ انہیں اپنی بات کے ابلاغ کے لیے بازاری الفاظ کا انتخاب کرنا پڑا۔ اور تحریک انصاف کے پاس بھی ڈھنگ کے لوگوں کی اتنی کمی ہے کہ پنجاب میں اطلاعات کے تین وزیر لگانے کے بعد بھی اسے وہی وزیر لگانا پڑا جسے پہلے بھی زبان درازی کی وجہ سے فارغ کیا گیا تھا۔ فیاض الحسن چوہان کو اعتراض تھا کہ اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہے میں کیوں دھوئے، لیکن اعتراف انہوں نے بھی کیا کہ کپڑے تو بہرحال گندے ہیں۔
فواد چودھری کی ایک بات میں تو پوری قیادت کے لیے سوچنے کا سامان ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کو ہلکی پھلکی ٹُھک ٹُھک کے لیے منتخب نہیں کیا، تبدیلی کے لیے کیا ہے۔ پانچ سال کے بعد تحریک انصاف کی کارکردگی کو اس بنیاد پہ نہیں پرکھا جائے گا کہ پچھلی حکومتوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت کی کارکردگی کیسی رہی بلکہ اس بنیاد پر پرکھا جائے گا کہ پولیس کا نظام ٹھیک ہوا یا نہیں، تعلیم کے شعبے میں انقلاب آیا نا نہیں، اسپتالوں کا نظام موثر ہوا یا جوں کا توں ہے۔ اداروں میں انقلاب نہ آیا تو حکومت کو ناکام تصور کیا جائیگا۔ تبدیلی وہ ہوتی ہے جو زبان زد عام ہو، ٹی وی ٹاک شوز میں زبردستی دلائل کے زور پر ثابت نہ کرنی پڑے۔ ابھی تک سب روایتی انداز میں ہی چل رہا ہے، یوں لگتا ہے جیسے حتمی نتائج سے کسی کو سرو کار نہیں۔
حکومت کے بہت سے وزرا نے بیماری کی تشخیص کو اپنی کامیابی سمجھ لیا ہے۔ وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اگلے روز طیارہ حادثہ کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے پی آئی اے کی پیشہ وارانہ کمزوریوں سے آگا ہ کیا۔ کیا حکومتوں کی ذمہ داری مسائل سے محض آگاہ کرنا ہے یا ان کا حل تلاش کرنا؟ طیارے کا حادثہ نہ ہوتا تو غلام سرور خان کے علم میں یہ باتیں بھی نہ آتیں جو اب آئی ہیں اور وہ پانچ سال گزار کر گھر چلے جاتے۔ کیادو سال میں کسی نے پی آئی اے، ریلوے اور سٹیل ملز کو ہنگامی بنیادوں پر ٹھیک کرنے کا ماسٹر پلان بنایا ہے؟ دو سال گزر گئے، مزید تین سال بعد کیا متعلقہ وزراء اپنے اپنے محکموں میں تبدیلی کے جھنڈے گاڑ کر جائیں گے؟
لاہور میں کوروناکے پھیلائو کے باعث مختلف علاقے سیل کیے گئے ہیں۔ سیل کرنے سے مراد یہ ہے کہ علاقے کے داخلی راستے پر بیرئیر لگا کر راستہ تنگ کر دیا گیا ہے اور ایک سنتری کو ڈیوٹی پر لگا دیا گیا ہے، محلے والے اسے چائے پانی دے جاتے ہیں، آنے جانے کی کوئی پابندی نہیں۔ اس سارے عمل کو علاقہ سیل کرنے کا نام دیا گیا ہے۔ اگر کارکردگی یوں دکھانی ہے تو نتائج بھی ایسے ہی آئیں گے۔ کارکردگی زمین پر دکھانی ہوتی ہے، فائلوں میں نہیں۔ اسی طرح پانچ سال بعد تبدیلی بھی گرائونڈ پر دکھانی ہو گی، ٹاک شو زمیں نہیں۔
فواد چودھری سے ضرور کہہ دیجئے کہ آئندہ اپنے گندے کپڑے بیچ بازار میں مت دھوئیں مگرخیال رہے کہ یہ نہ ہو کپڑے دھلنے سے ہی رہ جائیں اور گندے کے گندے پڑے رہیں۔