کاون اور ہم میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں کے مہابت ایک جیسے ہیں۔
کاون کا مہابت اتنا بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ خوشی سے ناچ رہا ہے یا ڈیپریشن کی آخری سٹیج پر ہونے کے باعث سر ہلائے جا رہا ہے۔ ہاتھیوں کے مزاج سے نا آشنا اس کا راکھوالا چڑیا گھر میں آئے بچوں سے ڈانسنگ ایلیفینٹ کے نام پر پیسے وصول کرتا اور انہیں کہتا کہ دیکھوبچو ہاتھی ڈانس کر رہا ہے۔ 2015 میں چڑیا گھر کے ایک وزٹ پر آئی ڈاکٹر ثمر خان نے یہ منظر دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئیں۔ امریکہ میں جانوروں کے مزاج سے آشنائی کی تعلیم حاصل کرنے والی ڈاکٹر ثمر خان فورا سمجھ گئیں کہ یہ ہاتھی ڈانس نہیں کر رہاہے بلکہ ڈیپریشن کی آخری سٹیج پرہے۔ انہوں نے کاون کی ہسٹری معلوم کی تو پتہ چلا کہ اسے نو عمری میں ہی بطور تحفہ قید میں ڈال دیا گیا تھا۔ ضیاء الحق کی بیٹی کے چہرے پہ مسکراہٹ لانے کے لیے کاون کے حقوق تب چھین لیے گئے جب یہ صرف چار سال کا تھا۔ 2012 میں اس کی ساتھی کے انتقال کے بعد یہ بالکل تنہا تھا، جسے مار پیٹ کے علاوہ کچھ نہ ملتا تھا۔ یہ کہانی سننے کے بعد ڈاکٹر ثمر خان واپس امریکہ گئیں تو انہوں نے سوشل میڈیا پر کاون کے رہائی کے لیے جدو جہد کا آغاز کیا۔ انہوں نے ایک آن لائن پٹیشن دائر کی تو دیکھتے ہی دیکھتے دو لاکھ لوگوں نے اس پر دستخط کر دیے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ کہانی امریکی گلوکارہ شیر تک پہنچی تو انہوں نے "فری دا وائلڈ " کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور کاون کو اس کے حقوق دلانے کی جد و جہد شروع کر دی۔
فری دا وائلڈ کے پلیٹ فارم سے کاون کے لیے پانچ سال تک جدو جہد ہوتی رہی، اس کے لیے دنیا بھر سے کروڑوں روپے کے فنڈز اکٹھے ہوئے۔ 2019 میں "فری دا وائلڈ "اسلام آباد ہائی کورٹ چلی گئی۔ عدالت نے نہ صرف کاون کوقدرتی ماحول میں کمبوڈیا بھیجنے کا حکم دیا بلکہ اسلام آباد کا چڑیا گھر بند کر کے وہاں موجود تمام جانوروں کو پاکستان یا پاکستان سے باہر ان کے قدرتی ماحول میں شفٹ کرنے کا حکم دے دیا۔ جس پر عملدرآمد بھی ہو چکا ہے۔ روس کا ایک خصوصی C-130 جہاز کاون کو لینے آیا، اسے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ خصوصی طیارے کے ذریعے کمبوڈیا بھیجا گیااور وہاں سرکاری سطح پر اس کا استقبال ہوا۔ یوں دنیا کے تنہا ترین اور مظلوم ترین ہاتھی کو اس کے حقوق دلائے گئے۔
سندھ کے ایک غریب کسان منو بھیل کی کہانی2008 میں میرے علم میں آئی تھی، جس کے خاندان کے سات افراد کو ایک وڈیرے نے1998 میں اپنی نجی جیل میں ڈال لیا تھا اوردس سال گزرنے کے باوجود بھی اس کی رہائی ممکن نہ ہو پائی تھی۔ منو بھیل اپنے خاندان کی رہائی کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتا رہا، اس وقت ایک مشہور ٹی وی چینل نے منو بھیل کو اس کا حق دلانے کے لیے بہت زور لگایا مگر اسے کامیابی حاصل نہ ہوئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کے اس کے بعد کیا ہوا، منو بھیل زندہ ہے یا مر چکا، اس کے خاندان کو پاکستان میں رہائی ملی یا نہیں۔ لیکن پندرہ سالہ صحافتی کیرئیر کے دوران ایسی بے شمار سٹوریز ہمارے سامنے آئیں۔ جس میں انسانوں کوسالہا سال تک زنجیروں سے جکڑے رکھنے کی خبریں آتی رہیں۔ بعض اوقات جائیداد کی لڑائی اس کی وجہ ہوتی اور بعض اوقات کچھ اورلیکن بہت کم ایسا ہوا کہ کسی کو انصاف مل پایا اگر ملا بھی تو کاون کی طرح عمر کے آخری حصے میں جا کر۔
چند سال پہلے میں چائلد پروٹیکشن بیورو میں پروگرام کی ریکارڈنگ کر رہا تھا، صبا صادق بیورو کی چئیرپرسن تھیں۔ نرم دل ہونے کے باعث وہ بچوں سے ملتے ہوئے بار بار آبدیدہ ہو جاتیں۔ ہم پروگرام کی ریکارڈنگ مکمل کرنے ہی والے تھے صبا صادق کو اطلاع ملی کہ سولہ سترہ سال کی ایک بچی کو گوجرانولہ بس اڈے کے قریب سے ریکور کیا گیا ہے، بچی کو لاہوربیورو لے کر آ رہے ہیں، ابتدائی اطلاعات کے مطابق وہ گھریلو ملازمہ تھی جس پر اس کی مالکن نے تشدد کیا تھا۔ صبا صادق نے ہمیں کہا کہ ہم کچھ دیر اور رک جائیں تا کہ اس بچی کے پہنچنے پر اس کی کہانی بھی ریکارڈ کی جا سکے۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک سرکاری گاڑی اس بچی کو لے کر پہنچ گئی۔ سولہ سترہ سال کے وہ ادھ موئی لڑکی قابل رحم حالت میں تھی، جس کے جسم کو گرم سلاخوں سے داغا گیا تھا۔ جگہ جگہ تشدد اور زخموں کے نشان تھے، لڑکی اپنی کہانی سناتے ہوئے روتی جاتی۔ وہاں کھڑا ہر شخص اس کی حالت دیکھ کر رنجیدہ تھا۔ صبا صادق غصے میں تھیں، میڈیا کے سامنے انہوں نے اعلا ن کیا اس بچی پر تشدد کرنے والا کوئی بھی ہو میں اسے قانون کے کٹہرے میں ضرور لائوں گی۔ کچھ عرصے بعد ہم نے سٹوری کا فالو اپ کیا توپتہ چلا کہ اس بچی پر تشدد کرنے والی خاتون ایک ایم پی اے کی بیوی ہے۔ خود ہی سوچ لیجئے کہانی کا انجام کیا ہوا ہو گا۔
پاکستان میں انسانوں میں بھی بہت سے کاون ہیں جن پر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی۔ یہاں کے مہابتوں کو معلوم نہیں کہ ہم کاون خوشی سے جھوم رہے ہیں یا ٹینشن سے سر ہلاتے جا رہے ہیں۔ ہم کسی ڈاکٹر ثمر خان کے منتظر ہیں جو ہمارے مہابتوں کو سمجھائے کہ ہماری ذہنی کیفیت کیا ہے۔
یہاں بسنے والے بہت سے لوگ کاون کو دیے جانے والے پروٹوکول سے حیران ہیں۔ وجہ واضح ہے، ہمارے ہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ انسانوں میں موجود کاونوں پر کبھی کسی نے توجہ نہ دی تو ایک ہاتھی کی نفسیات اور ڈیپریشن میں کسے دلچسپی ہو گی۔ کاون اور ہم میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں کے مہابت ایک جیسے ہیں۔