صورتحال سادہ ہے یا پیچیدہ؟ شاید بیک وقت سادہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ سادہ اس قدر کہ صاف نظر آتا ہے استعفے نہیں آئیں گے، حکومت نہیں جائیگی اورسینٹ انتخابات وقت پر ہوں گے مگر پیچیدہ اس لحاظ سے کہ کیا سوچ کرپی ڈی ایم خود کو بند گلی میں دھکیل رہی ہے؟ آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے سامنے آپشنز کیا ہیں اور استعفوں کی صورت میں اسے کیا حاصل ہو گا؟
اگر مریم نواز کو یہ یقین ہے کہ عمران خان سیلیکٹڈ ہیں اور یہ کہ بندہ تابعدار ہے، اگر انہیں واقعی یہ یقین ہے کہ اسی وجہ سے عمران خان کو اب بھی طاقتور حلقوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ تو کیاسوچ کر وہ استعفعے دینا چاہتی ہیں؟ اگر عمران خان کو پہلے سیلیکٹ کیا گیا تو کیا سیلیکٹرز عمران خان کو زیادہ شدومد کے ساتھ دوبارہ سیلیکٹ نہیں کریں گے؟ اگرمریم نواز کے بقول واقعی الیکشنز طاقتور حلقوں کے کنٹرول میں ہیں تو جو زبان انہوں نے پچھلے ایک سال میں استعمال کی ہے اس کے نتیجے میں انہیں کیا لگتاہے اُن کے چوراسی ایم این ایز دوبارہ اسمبلی تک پہنچ پائیں گے۔ لہذا سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مریم نواز استعفے دے کر کیا حاصل کریں گی؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا بلاول سندھ حکومت توڑنے اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟ جواب ہے، نہیں۔ پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ گراونڈ پر پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا عالم اور انتخابی عمل کی تیاری کیا ہے۔ بلاول کو بخوبی علم ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا کوئی انتخابی ڈھانچہ باقی نہیں بچا، اتنا کہ دو بڑی پارٹیوں کے بیچ الیکشن جیت سکے۔ پنجاب میں مخدوم احمد محمود کی ذاتی سیٹیں نہ ہوں تو شاید پورے پنجاب سے پیپلز پارٹی ایک دو سے زیادہ سیٹیں نہ لے سکے۔ مخدوم احمد محمود کے ساتھ بھی پیپلز پارٹی کی پنجاب سے سیٹوں کی تعداد صرف چھ ہے۔ بلاول جانتے ہیں کہ پنجاب میں ان کے ساتھ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ سندھ میں ان کی حکومت ہے۔ دوبارہ انتخابات ہوئے تو زیادہ سے زیادہ انہیں سندھ ہی دوبارہ مل سکتا ہے لیکن یہ بھی حتمی نہیں۔ تو ایسے میں بلاول کیا استعفے دے کر خسارے میں نہ رہیں گے؟ دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ بلاول اگر سینیٹ انتخابات سے پہلے استعفے دینے میں سنجیدہ ہیں تو الیکٹورل کالج کی تکمیل کے لیے سندھ میں جلد سے جلد ضمنی انتخابات کیوں چاہتے ہیں؟
فضل الرحمن کا معاملہ دوسرا ہے۔ ان کا کچھ بھی دائو پر لگا ہوا نہیں ہے۔ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد دوبارہ نون لیگ کو چوراسی سیٹیں ملیں یا نہ ملیں، پیپلز پارٹی کی سندھ میں دوبارہ حکومت بنے یا نہ بنے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں تک کہ جمہوری نظام ہی لپٹ جائے، کوئی اور سیٹ اپ بن جائے مولانا کو پھر بھی فرق نہیں پڑتا، مولانا کو اپنی ایک بوٹی چاہیے بکرا کسی کا بھی ہو۔ حیرت ہے بلاول اور مریم اس نکتے کو سمجھنے کے باوجود مولانا کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور کبھی نہ دیے جانے والے استعفوں کا اعلان کر کے سیاسی خسارہ مول لے رہے ہیں۔
سوچنے کی بات ہے جب استعفے دینے ہی نہیں تھے تو یہ شوشہ چھوڑا کیوں گیا تھا۔ بلاول اور مریم ناتجربہ کار تو ہیں مگر کیا سیاسی طور پر اتنے نا پختہ ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کی باتوں میں آ گئے۔ استعفوں کا شوشہ اگرمولانا فضل الرحمن کی تجویز پر حکومت پہ دبائو ڈالنے کے لیے چھوڑا گیا تھا تو کیا پی ڈی ایم نہیں جانتی تھی کہ اس دبائو میں آ کر حکومت گھر نہیں چلی جائے گی۔ استعفوں کا وہ کارڈ جو آخری آپشن کے طور پر کھیلا جانا چاہیے تھا وہ کھیل کے شروع میں ہی کھیل دیا گیا۔ دوسری طرف حکومت کے اس فیصلے نے کہ جو استعفی آئے گا فورا قبول کر لیا جائیگا، اپوزیشن کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ ایک طرف مرتضیٰ جاوید عباسی اورسجاد اعوان استعفیٰ قبول کیے جانے سے گھبرا کر وضاحت دے رہے ہیں کہ استعفی قبول نہ کیا جائے ہم نے استعفی اسپیکر کو بھجوایا ہی نہیں، یہ کسی جعل ساز کی کارستانی ہے۔ دوسری طرف جمعیت علماء اسلام نے اپنے چار سینئر ترین رہنمائوں کو پارٹی سے نکال دیا۔ جھنجلاہٹ، بے چینی، ناکامی اور پریشانی کے سوا اب تک پی ڈی ایم کے کچھ ہاتھ نہیں آیا ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں پی ڈی ایم کے جلسوں سے مریم اور بلاول کو فائدہ یہ ہوا کہ ان کے کارکن متحرک ہو گئے ہیں، مگر کس لیے؟ کیا انتخابات ہونے والے ہیں؟ یہ کارکن انتخابات سے ایک سال پہلے متحرک ہونے چاہئیں تھے تاکہ انتخابات میں اس کا فائدہ ہوتا۔ وقت سے پہلے مریم نواز اور بلاول نے اپنے ان کارکنوں کو تھکا دیا ہے جو واقعی سمجھتے تھے کہ ان کے جلسوں سے حکومت گھر چلی جائیگی۔ واضح رہے کہ جب کارکنوں کو ان کے دل کی مراد نہیں ملے گی تو وہ تھک جائیں گے اور دوبارہ شدو مد سے باہر نہیں نکلیں گے۔
دوسری طرف ایسے ماحول میں شاید وزیر اعظم کو بھی محتاط گفتگو کرنے کی ضرورت ہے بلکہ شاید کم بولنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ تمام توجہ اپنی گورننس کو بہتر بنانے، ریفارمز لانے، بہترپالیسیاں تیار کرنے اور مہنگائی کو کم کرنے پر مرکوز کریں تو شاید ان کے لیے بہتر ہو گا۔ وزیراعظم عمران خان اپنی کمزور گفتگو سے ہر چند دن کے بعد اپوزیشن کو نیا کونٹینٹ مہیا کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں لاہور جلسے کے بعد دم توڑتی پی ڈی ایم کو مزید سانسیں مل جاتی ہیں۔ اب وزیر اعظم اگر نہ بھی کہتے کہ حکومت میں آنے سے پہلے ان کی تیاری نہیں تھی، تو کیا تھا؟ اس کی بجائے وہ اپنی تمام توجہ نئی چیزیں سیکھنے میں صرف کریں، ان چیزوں کو سمجھیں جن پر انہیں ابھی تک عبور حاصل نہیں ہے، ان اداروں میں ریفارمز لے کر آئیں جہاں ڈھائی سال میں بہتری نہیں آ سکی۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ کم بولیں اور کام زیادہ کریں، اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے اس سے بہتر راستہ کوئی نہیں ہو سکتا۔