دورہ افغانستان کے لیے رخت سفر باندھتے ہی میرے لیے حیرتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ویزہ لگوانے کے بعد اسلام آباد میں کرنسی ایکسچینج کے لیے پہنچا تو پتہ چلا کہ افغانستان کا روپیہ پاکستان سے دوگنا مستحکم ہے۔ یعنی دس ہزار پاکستانی کے بدلے پانچ ہزار افغانی آپ کو تھما دیے جائیں گے۔ پاکستان میں ڈالر 170 روپے کا ہے جبکہ خراب حالات کے باوجود افغانستان میں ایک ڈالر اب بھی 85افغانی روپے میں مل جاتا ہے۔ حیرت ہوئی کہ بیس سالہ جنگ کے باوجود افغانستان کی کرنسی پاکستان سے دگنی مستحکم کیسے ہے۔
چند دن پہلے تک افغانستان میں پیٹرول 38 روپے لیٹر میں ملتا تھا، نئی حکومت آنے کے بعد معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا تو پیٹرول بڑھ کر 60 روپے تک جا پہنچا ہے مگر حکومت پر امید ہے کہ تھوڑے عرصے میں پیٹرول دوبارہ سستا ہو جائے گا۔ شہباز گل کے بیانات یاد آئے جو بار بار حساب لگا کے کہتے ہیں کہ پاکستان میں پیٹرول خطے کے دوسرے ممالک کی نسبت سب سے سستا ہے، حیرت ہوئی کہ ڈالر کے مقابلے میں پیٹرول 38 روپے کے حساب سے افغانستان میں سستا ہوا کہ پاکستان میں؟
صبح سات بجے کے قریب جونہی طورخم جانے کے لیے لنڈی کوتل کراس کیا، کنٹینرز کی طویل قطاریں کئی کلو میٹر تک لگی دکھائی دیں۔ لنڈی کوتل سے طورخم تک کنٹینرز کی طویل قطاروں کو گنا نہیں جا سکتا تھا، یہی منظر طورخم کے دوسری جانب بھی دیکھا جس سے اندازہ ہوا کہ نئی افغان حکومت اپنی معاشی مشکلات کو تجارت کے ذریعے حل کرنے میں بہت سنجیدہ ہے۔ طالبان کی نئی عبوری حکومت نے پاکستان کے ساتھ تجارت پر اشرف غنی حکومت کی جانب سے لگایا گیا اضافی 15 فیصد ٹیکس بھی ختم کر دیا ہے جس سے یقینا تجارتی سرگرمیوں میں اضافہ ہواہے۔ کنٹینرز یہاں موجود ہوتے ہیں یہ تو پتہ تھا لیکن اتنی بڑی تعداد میں ہوں گے، یہ دیکھ کر یقینا حیرت ہوئی۔
جب آپ طورخم بارڈر پہنچتے ہیں تو پاکستان کی جانب والے حصے میں سامان کی چیکنگ کے لیے سکینرز لگائے گئے ہیں، امیگریشن کے لیے باقاعدہ ڈیسک موجود ہیں، کسٹم حکام بھی اپنا کام کر رہے ہیں، پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں اور واپسی پر کوویڈ کا ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب آپ پاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں ایسا کوئی انتظام موجود نہیں۔ یوں لگتا ہے افغان حکومت کو کوئی غرض نہیں کہ کون کیا لا رہا ہے، کیا لے جا رہا ہے۔ نہ کوئی ویزہ مانگتا ہے، نہ پاسپورٹ۔ صرف صحافیوں سے کوریج کے لیے اُن کی حکومت کی جانب سے جاری کیا گیا اجازت نامہ طلب کیا جاتا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔
میرے لیے حیرت کی ایک بات یہ بھی تھی کہ طورخم سے کابل تک صاف ستھری بہترین دو رویہ سڑک موجود تھی، سڑک کے اتنا اچھا ہونے کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ جگہ جگہ دریائے کابل آپ کے ساتھ ساتھ چلنے لگتا ہے، دریائے کابل کے اُس پار خاموش ایستادہ پہاڑ ہیں جو خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔ کابل کے راستے میں آپ کو کئی دروں سے گزرنا پڑتا ہے، بعض جگہوں پر تو سرنگیں کھود کر راستے بنائے گئے ہیں۔ کابل تک کا راستہ مجموعی طور پر خوبصورت بھی ہے اور پر امن بھی۔ حالانکہ راستے میں جلال آباد بھی پڑتا ہے جہاں داعش کے آثار موجود ہیں مگر اس کے باوجود خوف کی ایسی فضا نہیں ہے یہاں تک کہ ہم نے دوپہر کا کھانا جلال آباد ہی میں کھایا اور خوف محسوس نہ ہوا۔
اور ہاں، حیرت مجھے ایک اور بات پر بھی ہوئی۔ یہاں ہوٹلوں میں دنبہ سستا اور دال مہنگی ہے۔ کابل میں اول توہوٹلوں میں دال سبزی کھانے کو ملتی ہی نہیں۔ دال مانگیں تو مسکرانے لگتے ہیں۔ ایک دوست نے بتایا پاکستانیوں کو دال خور کہہ کر طنز کرتے ہیں۔ پھر بھی ڈھٹائی کے ساتھ ہم نے دال کی تلاش جاری رکھی۔ ایک جگہ میسر آئی تو چارسو روپے افغانی یعنی آٹھ سو روپے پاکستانی میں دستیاب تھی جسے دو لوگ کھا سکتے ہیں جبکہ دو افراد کے کھانے کے لیے دنبے کا گوشت ساڑھے تین سو افغانی میں بہ آسانی مل جاتا ہے، ہلکے ہوٹل میں تو آپ کو تین سو میں بھی مل جائے گا۔ مقامی پھل یہاں بہت سستا ہے، انگور جو اس وقت پاکستان میں تین سو روپے کلو میں دستیاب ہے یہاں بہ مشکل پاکستانی پچاس روپے کلو میں مل جائے گا۔ انگوروں سے بھراہوا تھیلہ صرف ایک سوپچاس افغانی میں۔ یعنی پانچ سے سات کلو انگور آپ صرف تین سو روپے پاکستانی خرچ کر کے خرید سکتے ہیں۔ ایسے ہی انار اور گرما وغیرہ بھی ارزاں نرخوں پہ دستیاب ہیں۔ ٹیکسی سروس البتہ مہنگی اور غیر معیاری ہے۔ ہوٹلوں میں رہائش کافی مہنگی ہے۔ انٹرنیٹ سروس مہنگی اور غیر معیاری ہے۔ فور جی چلتا تو ہے لیکن ویسا اچھا نہیں جیسا ہونا چاہیے۔
خواتین کابل میں معمول کے مطابق بڑی تعداد میں باہر آ رہی ہیں۔ بے شمار ایسی ہیں جو چہرہ نہیں ڈھانپتیں، عبایا البتہ خواتین کے لباس کا روایتی حصہ ہے جو پچھلی حکومتوں میں بھی ان کا معمول رہا ہے۔ لیکن حیران کن طور پر ہر عمر کی خواتین بازاروں میں مردوں کے بغیر اپنی مرضی سے شاپنگ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ چند ایک تو گاڑی چلاتی بھی نظر آئیں۔ بعض دو تین کی ٹولیوں میں گھومتی دکھائی دیتی ہیں اور بعض بالکل اکیلی۔ کابل مجموعی طور پر ایک صاف ستھر ا شہر ہے، کراچی سے موازنہ کریں تو سڑکوں کا معیار اور صفائی میں کہیں آگے نظر آئے گا۔ پورے شہر میں کہیں سیوریج کا پانی سٹرک پر دکھائی نہیں دے گا اور کچرا اٹھانے کا معقول انتظام معمول کے مطابق کام کر رہا ہے۔ افغانستان کی نئی حکومت کو البتہ بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ مردوخواتین کی تعلیم کے لیے الگ پالیسی کا نفاذ، عدالتوں کے نظام کی بحالی، تھانوں اور جیلوں کے نظام کی بحالی، مقامی مہاجرین کی واپسی، پاسپورٹ کا اجرائ، دنیا بھر میں افغان سفارت خانوں کا فعال ہونا، بین الاقوامی ائیر پورٹس کا مکمل طور پر فعال ہونااور سب سے بڑھ کر معاشی مشکلات کا حل، بینکوں سے پیسے نکلوانے کی آزادی اور اس سے جڑے بہت سے مسائل۔ ان تمام چیلنجز کا تفصیلی جائزہ اگلی تحاریر میں۔