Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Taza Medical Reports Jali Hain?

Taza Medical Reports Jali Hain?

"اینجیو گرافی کرائے بغیر پاکستان کا سفر کیا تو زندگی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے "۔ یہ نوازشریف کی جانب سے جمع کرائی گئی تازہ رپورٹ میں ڈاکٹر فیاض کی جانب سے لکھا گیا ہے۔ مگر کوئی یہ پوچھے کہ دو سال میں اینجیو گرافی کیوں نہ ہوئی اور اب بھی لندن میں قیام کے دوران اینجیو گرافی کیوں نہیں کرا لیتے۔ علاج کرائیں اور پاکستان واپس آئیں مگر نہ جانے اس میں کیا امر مانع ہے۔

نواز شریف کو بعض ایسے عارضے لاحق ہیں جو عمر کے اس حصے میں بے شمارافراد کو لاحق ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثرعارضے زندگی کی آخری سانس کے ساتھ چلتے ہیں، بس ادویات سے انہیں قابو میں رکھنا پڑتا ہے۔ گویااس طرح کے کیسز میں علاج اور زندگی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جس وقت نواز شریف علاج کی غرض سے باہر گئے تھے اس وقت مبینہ طور پر ان کے پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک گر گئے تھے مگر کچھ عرصے بعد انہیں صحت یابی نصیب ہوئی اور پلیٹ لیٹس مقررہ حد پر برقرار ہیں۔ اب اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ جب تک ان کا دل ویسا نہیں ہو جاتا جیسا چالیس برس کی عمر میں ہوا کرتا تھا تو شاید اب یہ ممکن نہیں، یہ زندگی کی ایک حقیقت ہے اور بے شمار لوگوں کے ساتھ جڑی ہے۔ ایسے میں نواز شریف کی واپسی کو ان کی صحت کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے صحیح طور پر تجزیہ نہیں ہو سکے گا۔ معاملہ کچھ اور ہے۔

مریم نواز ایک سے زائد بار میڈیا کے رو برو کہہ چکی ہیں کہ اگر ان کو انصاف کی فراہمی کا یقین دلا دیا جائے تو نواز شریف آج ہی واپس آ جائیں گے۔ گویاوہ صحت کی وجہ سے نہیں اپنے کیسز کی وجہ سے ملک سے باہر ہیں۔ شاہد خاقان عباسی بھی ایسی ہی بات کہہ چکے ہیں۔ رانا ثناء اللہ بھی ایسے ہی اشارے دیتے اکثر نظر آتے ہیں۔ ایاز صادق نے تو کہہ دیا وہ ہشاش بشاش ہیں اور یہ کہ وہ انہیں بہت جلد واپس لے کر آئیں گے۔ جاوید لطیف بھی پچھلے برس ایسی تاریخیں دیا کرتے ہیں۔ دونوں میں سے ایک بات درست ہے اور ایک غلط۔ یا تو نواز شریف کی صحت کے بارے میں ان کے ڈاکٹر کا تازہ خط غلط ہے یا پھر ایاز صادق جھوٹ بولا کرتے تھے۔ دونوں باتیں بیک وقت درست معلوم نہیں ہوتیں۔

ایک اور سوال بھی اہم ہے اگر نواز شریف کی صحت پچھلے ڈھائی سال سے انہیں ایک سفر کی اجازت نہیں دے رہی تو کیا ایسے میں وہ بطور وزیر اعظم پاکستان کی قیادت کرنے کے لیے جسمانی طور پر فٹ ہیں؟ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کس کی تاحیات نااہلی ختم کرانے کی جدو جہد کر رہے ہیں۔ دو دن پہلے انہوں نے فل کورٹ ریفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سولہ ججز کی موجودگی میں 62(1)F کی تشریح پر زور دیا بلکہ اصرار کیا۔

حالانکہ اس طرح کے موقع پر ایسی گفتگو شاید اتنی مناسب نہ تھی کیونکہ یہ ایک چیف کو رخصت کرنے اور دوسرے چیف کو خوش آمدید کہنے کے لیے منعقد کی گئی ایک بیٹھک تھی۔ گویا احسن بھون اور وکلا تنظیمیں نواز شریف کی سیاست میں واپسی کی راہ ہموار کرنے کے لیے رات دن ایک کیے ہوئے ہیں اور نواز شریف کے ڈاکٹر کہہ رہے ہیں ان کی حالت ایسی نہیں کہ وہ ایک سفر بھی کر سکیں۔

لاہور ہائیکورٹ نے باہر جانے کی مشروط اجازت دیتے ہوئے نواز شریف کو اپنی میڈیکل رپورٹس باقاعدگی سے جمع کراتے رہنے کی ہدایت کی تھی۔ مگر اگست سے اب تک کوئی رپورٹ ہوئی جمع نہ ہوئی اور اگست میں بھی جو چیز جمع کرائی گئی تھی اسے میڈیکل رپورٹ نہیں کہا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے تشکیل دیے گئے میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی صحت کے بارے میں رپورٹ دینے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ ان کے پاس تازہ میڈیکل رپورٹس تو موجود ہی نہیں ہیں۔

اٹارنی جنرل نے گذشتہ ہفتے شہباز شریف کو خط لکھ کر تازہ میڈیکل رپورٹس جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ اس کے بعد بھی جو جمع کرایا گیا ہے وہ میڈیکل رپورٹ نہیں بلکہ چندایسی رپورٹس کی روشنی میں ایک ڈاکٹر کا تجزیہ یا تجویز ہے جو حکومت کو دستیاب نہیں۔ نواز شریف کے ڈاکٹر کے اس خط کے صحیح ہونے کا جائزہ لینے کے لیے اگر اسے دوبارہ میڈیکل بورڈ کے سامنے رکھ دیا جائے تو وہ اب بھی ان کی صحت کے بارے میں درست طور پر اندازہ لگانے میں ناکام رہے گا کیونکہ جن رپورٹس کی روشنی میں ڈاکٹر فیاض نے سفر سے منع کیا ہے وہ رپورٹس تو میڈیکل بورڈ کے سامنے موجود ہی نہیں ہیں۔ لہذا وقت کو ایک بار پھر دھکا دے دیا گیا ہے اور پنجاب حکومت کو بڑی صفائی سے ٹہلا دیا گیا ہے۔

ان تمام شواہد اور دلائل کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف کے واپس نہ آنے کی وجوہات خالصتا سیاسی ہیں۔ اگر آج نواز شریف کے کیسز ختم کر دیے جائیں اور سیاست میں ان کی راہ ہموار ہو جائے تو وہ اپنی دوائوں کی پوٹلی اٹھا کر فورا پاکستان چلے آئیں گے، کوئی میڈیکل رپورٹ اور کوئی ڈاکٹر ان کی راہ میں حائل نہ ہو سکے گا۔

حکومت کی جانب سے نواز شریف کی تازہ رپورٹس کے بارے میں دو ٹوک موقف سامنے آیا ہے اور وہ یہ کہ رپورٹس جعلی ہیں۔ جعلی ہیں تو جعلی ثابت کیسے ہوں گی؟ سوال یہ کہ حکومت کے پاس ان رپورٹس کو جعلی ثابت کرنے کے لیے کیا شواہد موجود ہیں۔ کیا حکومت اب عدالت میں ایک اور درخواست دائر کرے گی کہ جناب نواز شریف کی جانب سے جعلی رپورٹس جمع کرانے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ملزم چالاک ہے اور حکومت بے بس۔ وہ مختلف حربے تو استعمال کر رہی ہے مگر کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ راستہ قانون کی کتاب سے نکلتا ہے اور قانون کی کتاب آخری صفحے پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔