کراچی کو جنگی بنیادوں پر بنائے گئے بڑے منصوبے کے بغیرٹھیک کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ حکمرانوں سے اس کے علاوہ دوسرے جملوں کی توقع نہیں کہ ہم کیا کریں بارش ہی غیر متوقع طور پہ زیادہ ہوئی ہے۔ سعید غنی صاحب نے زخموں پہ مزید نمک چھڑکنے کے لیے کراچی کے ان چندکلومیٹرزکی سڑکوں کا دورہ کر کے ویڈیو بنائی اور پوسٹ کی جہاں پانی کھڑا ہوا نہیں تھا۔ ستر فیصد کے قریب وہ شہر جہاں لوگ کمر تک ڈوبے ہوئے تھے وہاں جانے کی انہیں توفیق نہ ہوئی۔ سوشل میڈیا پہ وہ کلپ وائرل رہے جس میں لوگ چوتھی منزل کی چھت سے گلی میں کھڑے پانی میں چھلانگ لگاتے رہے اور چوٹ تک نہ کھائی بلکہ چھلانگ لگانے کے بعد جھیل کے پانی کی طرح سطح پر ابھرے اور تیراکی کرتے ہوئے دوسرے کنارے پہنچ گئے۔ محض زیادہ پانی آنے کی وجہ سے حالت ایسی نہیں ہو سکتی، وجوہات کچھ اور بھی ہیں۔
کراچی کے ڈوب جانے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی کا سیوریج سسٹم تباہ ہو چکا ہے۔ مجھے کراچی میں جا کر سیوریج اور پانی کے نظام پر کچھ پروگرامز ریکارڈ کرنے کا موقع ملا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بیشتر علاقوں میں سیوریج کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر کچرے کی آماجگاہ بن چکا تھا اور سیوریج کا پانی اپنے بہنے کی جگہ نہ پا کر سڑکوں پر اُمڈ آیا تھا، وہاں کھڑے ہو کر یہ تصور کرنا مشکل نہ تھا کہ اگر بارش کا اضافی پانی شامل ہو گیا تو پہلے گلیوں اور پھر گھروں میں داخل ہونا یقینی ہو گا۔ کئی علاقے تو ایسے بھی کیمرے میں محفوظ کیے جہاں سیوریج کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں تھا اور گندے پانی کو خالی پلاٹس کا راستہ دکھایا گیا تھا۔ اکثر جگہوں پر پلاٹس بھر جانے کے بعد گلیوں میں اس قدر پانی بھر چکا تھا کہ گزرنے تک کا راستہ نہ رہا تھا۔ لوگوں نے بتایا جب بارش ہوتی ہے تو یہی پانی گھروں میں آجاتا ہے۔ بچے اسکول نہیں جا پاتے، دفتر جانا دوبھر ہو جاتا ہے اور جنازے تک اٹھانے کے لیے گندے پانی سے گزرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس نظام کے ہوتے ہوئے سعید غنی صاحب اگر یہ کہیں کہ جناب بارش ہی زیادہ ہو گئی ہے ہم کیا کریں تو یہ خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ لاہور میں بارش ہوئی وہاں بھی تو پانی بھر گیا، اس پر تنقید کیوں نہیں ہوتی۔ لاہور اور کراچی میں فرق ہے۔ لاہور میں زیادہ بارش کے بعد پانی اس لیے بھر جاتا ہے کہ پانی کا اِن فلو زیادہ اور نکاس کی رفتار نسبتا کم ہوتی ہے۔ لیکن چند گھنٹوں میں پانی سڑکوں سے غائب ہو جاتا ہے کیونکہ نکاس کا نظام بحرحال موجود ہے لیکن کراچی میں پانی تب تک کھڑا رہتا ہے جب تک سوکھ نہ جائے۔ دوسرا لاہور میں کراچی کی طرح جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نہیں لگے ہیں، بارش کا پانی بھرنے کے بعد کچرا ابل کر تیرنے نہیں لگتا ہے۔ جبکہ کراچی میں کچرا بارش کے پانی کا حصہ بن جاتا ہے۔
کچرے کو آگ لگانا قانونا جرم ہے۔ لیکن کراچی میں ڈمپنگ سائٹس پرکیمیکل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے۔ کراچی کے بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں آپ جب چلے جائیں دھواں اُٹھ رہا ہو گا اور یہ آگ کوئی اور نہیں خود محکمے کے لوگ لگاتے ہیں۔ اب دیکھئے دوہرا جرم ہو رہا ہے۔ پہلے تو چودہ ہزار ٹن میں سے صرف آٹھ ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے۔ باقی کا کچرا سڑکوں، نالوں، گلیوں اور خالی پلاٹس میں پھینک دیا جاتا ہے۔ جب خالی پلاٹس اور گلیاں کچرے سے بھر جاتی ہیں تو لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس کی چِتا کو آگ لگا دیتے ہیں۔ اور پھر دوبارہ وہاں کچرا پھینکنے لگتے ہیں۔ جو آدھاکچرا محکمے کے لوگ اٹھا کر لے بھی جاتے ہیں انہیں بھی آگ ہی لگائی جاتی ہے۔ گویا سندھ سرکار نے شہر بھر کو آگ لگا رکھی ہے اور ڈھٹائی دیکھئے سندھ اور کراچی کی ترقی پہ نازاں ہیں۔
پچھلے دنوں سندھ کے ایک صوبائی وزیر میرے ساتھ ٹی وی شو میں تھے، نہایت اعتماد کے ساتھ کہہ رہے تھے پی ٹی آئی والے کراچی میں ہونے والی ترقی سے خوفزدہ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ اب بتائیے اسے ڈھٹائی کہیں یا خود فریبی۔
اس سارے معاملے میں ایک فریق پی ٹی آئی بھی ہے۔ جسے عوام نے کراچی شہر سے پہلی بار قومی اور صوبائی اسمبلی کی چونتیس سیٹوں سے نوازا ہے۔ عوام نے پی ٹی آئی کو اسی لیے ووٹ دیا کہ وہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی سے تنگ آ چکے تھے اور انہیں لگتا تھا کہ کراچی شہر کو پی ٹی آئی ہی تبدیل کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے کراچی کو تو کیا بدلنا تھا، لاہور کو بھی بدل دیا، اب کچرے کے ڈھیر لاہور میں بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ کراچی میں اگرچہ ان کے پاس ایک عذر موجود ہے کہ ہمیں کراچی سے ووٹ تو ملے لیکن سندھ میں حکومت ہمارے پاس نہیں نہ ہی لوکل گورنمنٹ میں ہمارا کوئی حصہ ہے اس لیے تبدیلی لانے کے لیے عملی طور پہ ہم کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے، تکنیکی طور پر ان کا یہ عذر درست مگر عوام پی ٹی آئی کا یہ عذرقبول نہیں کریں گے۔ آپ کراچی کی سڑکوں پر جا کر عوام سے رائے معلوم کریں، لوگ پی ٹی آئی سے مایوس نظر آئیں گے۔ آج اگر کراچی میں دوبارہ انتخابات ہوں تو پی ٹی آئی کا یہاں سے چونتیس سیٹیں دوبارہ حاصل کرنا نہایت مشکل ہو جائے گا۔ لہذا کچھ بھی کر کے پی ٹی آئی کو اپنا کردار ادا کرنا ہی ہو گا۔
کراچی کے نظام کو ٹھیک کرنے کا اب شاید ایک ہی حل رہ گیا ہے اور وہ یہ کہ تمام سیاسی اور عسکری قوتیں مل کر جنگی اور ہنگامی بنیادوں پر ایک حکمت عملی بنائیں، بڑی رقم اس منصوبے کے لیے مختص کریں، سپریم کورٹ کی حمایت حاصل کریں اور پھر سب سے پہلے نالوں پر تجاوزات قائم کر کے بسنے والوں کو متبادل جگہ منتقل کریں، نالوں کی ایسے صفائی کریں جیسے سوات سے دہشت گرد صاف کیے تھے۔ پانی اور سیوریج کے نظام کا از سر نو جائزہ لیں، رہائشی آبادیوں کو بڑے نالوں کے ساتھ منسلک کریں اور آئندہ کے لیے صفائی کا موثر نظام قائم کر لیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے اس ملک سے بڑے بڑے آپریشن ہو سکتے ہیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے، نیت ہونی چاہیے۔