لندن میں پاکستان کی قسمت کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور کابینہ کے ارکان کسی خفیہ مقام پر نواز شریف کی سربراہی اور اسحاق ڈار کی معیت میں معاشی پالیسی بنانے میں مصروف ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ میٹنگ ناصر جنجوعہ کے گھر پر ہوئی ہے جو ارشد ملک سکینڈل میں ایک متنازع کردار کے طور پر سامنے آئے تھے۔ اس میٹنگ کی جاری کردہ تصویر نے ان لوگوں کو مزید مشتعل کر دیا ہے جو پہلے ہی اسحاق ڈار اور نواز شریف کے واپس نہ آنے پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔
جب 22 مارچ کو میں نے یہ خبر دی تھی کہ اسحاق ڈار دن رات اگلا بجٹ تیار کرنے میں مصروف ہیں تو بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی تھی بلکہ سوشل میڈیا پر مجھے شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا کہ تحریک انصاف کی جیتی جاگتی حکومت کے ہوتے ہوئے بھلا اسحاق ڈار بجٹ کیوں بنائیں گے مگر اب یہ سب کچھ عملی طور پر ہو رہا ہے۔ نواز شریف اسحاق ڈار اور مفتاح اسمعیل سے پوچھ رہے ہیں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائے بغیر معاشی دبائو کم کرنے کا طریقہ بتایا جائے، گویا نواز شریف اور حکومت اپوزیشن کے دبائومیں سخت فیصلے لینے سے ابھی بھی گھبرا رہی ہے۔
معاشی صورتحال واقعی تشویش ناک ہے، کاروباری حضرات موجودہ عدم استحکام کی صورتحال میں انویسٹمنٹ کے لیے تیار نہیں۔ ڈالر بے قابو ہو چکا ہے، گذشتہ روز ریکارڈ بلندی پر تھا، اوپن مارکیٹ میں 192 روپے پر ٹریڈ ہوا۔ ڈیزل کی قیمتیں بڑھاتے ہی مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ موجودہ حالات نے حکومت کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ حکومت کو گھر بھیج کے کوئی غلطی تو نہیں کر دی اور یہ بھی کہ فوری انتخابات میں جانا کم نقصان دہ رہے گا یا چھ مہینے بعد جانا۔ خود مسلم لیگ ن سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں کہ مہنگائی اور خراب معیشت کا ٹوکرا اٹھا کر کیونکر انتخابات میں جایا جائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کے قریبی لوگ فوری انتخابات چاہتے ہیں جبکہ شہباز شریف کے قبیل کے لوگ شش و پنج کا شکار ہیں۔
پنجاب میں حالات مزید خراب ہونے والے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے منحرف اراکین کے خلاف توفیصلہ نہیں دیا لیکن پنجاب میں صورتحال مختلف ہے۔ پنجاب کے منحرف اراکین نے پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ کاسٹ کیا ہے۔ ان کی سیٹ کا محفوظ رہنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پنجاب ن لیگ کے ہاتھ سے چلا جاتا ہے تو حکومت مزید دبائو کا شکار ہو جائے گی۔
عمران خان اسلام آباد کی کال دے چکے ہیں۔ عوام میں ابھی سے بے چینی پائی جاتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ راستے کب سے بند ہو رہے ہیں۔ حکومت بھی احتجاج روکنے اور نہ روکنے کے حوالے سے مخمصے کا شکار ہے۔ قیاس آرائیاں یوں بھی کی جا رہی ہیں کہ عمران خان اسلام آباد پہنچنے کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی توڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں اور اگر تب تک پنجاب دسترس میں واپس آ چکا ہوا تو پنجاب میں بھی یہی ہو گا۔ ایسے میں حالات زیادہ بے یقینی کا شکار ہوں گے اور معاشی حالات زیادہ دگر گوں ہو جائے گی۔
آصف زرداری اس وقت پاکستان کے وہ واحد سیاستدان ہیں جو قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتے اور سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ تبھی وہ زور دے کر دوہرا رہے ہیں کہ الیکشن ریفارمز کے بغیر ہر گز الیکشن میں نہیں جانا چاہیے۔ بلاول نے گزشتہ روز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہماری پالیسی واضح ہے، پہلے ریفارمز پھر الیکشنز۔
انہوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ریفارمز کے بغیر الیکشن میں گئے تو اگلے انتخابات خونی انتخابات ہوں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اگر اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرتی ہیں تو خراب کارکردگی کا سارا دبائو ن لیگ پر آئے گا اور پیپلز پارٹی وزارتیں اور آئینی عہدے رکھنے کے باوجوداس الزام سے صاف نکل جائے گی کہ حکومت مہنگائی کم نہیں کر سکی اور اس نے پرفارم نہیں کیا۔
فضل الرحمن خاموش، ناراض اور غائب ہیں۔ وہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ انہیں اس سارے کھیل میں کیا ملا۔ چند وزارتیں تو چلیے مل گئیں لیکن مولانا فضل الرحمن جو چاہتے تھے وہ اب انہیں کوئی دینے کو تیار نہیں۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں وہ بھی فورا الیکشن چاہیں گے عین ممکن ہے منظر عام پر آنے کے بعد وہ پہلا بڑا بیان یہی داغیں۔
عوام کے ایک بہت بڑے حلقے کی ایک تشویش یہ بھی ہے کہ موجودہ حالات میں ہونے والے انتخابات پر اگر سب کا اتفاق نہ ہوا تو انتخابات کے بعد بھی حالات عدم استحکام کا شکار رہیں گے۔ یعنی اگر عمران خان کو انتخابات کا ساز گار ماحول نہ ملا اور انہیں دھاندلی سے ہروایا گیا تو وہ دوبارہ سڑکوں پر ہوں گے۔ دوسری طرف اگرمتحدہ اپوزیشن الیکشن ہار گئی تو وہ بھی بے چینی پیدا کیے رکھنے کی کوشش کرے گی۔ ایسے میں حل صرف ایک ہی ہے انتخابات اتنے شفاف ہوں کہ کسی کو بھی اس پہ انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
پاکستان دوراہے پر کھڑا ہے، بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے تمام سٹیک ہولڈرز ایک میز پر بیٹھ کر پاکستان کے مسائل کا حل نکالنے کو تیار نہیں۔ کیا کوئی پاکستان کے مفاد کا سوچ رہا ہے یا سب اپنے اپنے سیاسی فائدے میں لگے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں سب مل بیٹھیں اورکم از کم معیشت سے متعلق چند نکات پر اتفاق کر لیں تا کہ پاکستان کو سری لنکا جیسی مثالیں دے کر ڈرایا نہ جائے۔
جب ان حالات میں پاکستانیوں کو سری لنکا کی مثالیں دی جائیں گی تو کون یہاں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہو گا، کیسے سٹاک مارکیٹ چلے گی اور کیسے روپیہ سانس لے پائے گا۔ لہذا بیٹھئے بات کیجئے اور پاکستان کو بحرانی صورتحال سے نکالنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیجئے۔ یقینا پاکستان کا مفاد سب کے مفاد سے بڑا ہے۔