Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Karachi Ki Mauripur Road

Karachi Ki Mauripur Road

جب بھی کراچی آئیں، عجیب طرح کا دکھ آپ کو گھیر لیتا ہے، پچھلے بارہ سال سے ہر بار یہاں آنے پر یہ سوال پہلے سے بھی زیادہ شدت سے ذہن میں اٹھتا ہے کہ شہر کا یہ کیا حال ہو گیا ہے۔ ٹوٹی سڑکیں، گندگی، کچرا، کھٹارا بسیں اور بے چینی۔ سندھ حکومت کے لیے کراچی صرف شاہراہ فیصل کا نام ہے۔

پاکستان بھر کے دوسروں شہروں سے تعلق رکھنے والے جب بھی کراچی آتے ہیں، بچوں کے ساتھ سمندر کی سیر کو ضرور جاتے ہیں۔ کراچی کی ساحلی پٹی پر واقع معروف سیاحتی مقامات سینڈز پٹ، ہاکس بے، مبارک ولج، ٹرٹل بیچ، فرینچ بیچ، سنیری بیچ اور پیراڈئز پوائنٹ میں ایک مشترک بات یہ ہے کہ یہ سب ماڑی پور روڈ سے گزر کر آتے ہیں۔ گویا ماڑی پور روڈ ایک ایسی سڑک ہے جو مندرجہ بالا مقامات پر واقع ساحل سمندر پر جانے والے سیاحوں کی واحد گزر گاہ ہے۔ جتنا پاکستان اپنی زندگی میں اب تک میں نے گھوما ہے اور بہت گھوما ہے، اس سے بُری سڑک اور اس سے بُرا راستہ کبھی نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ وہ سڑکیں جو سیلاب میں بہہ جاتی ہیں اور ان کی جگہ متبادل کچا راستہ استعمال ہونے لگتا ہے، یا وہ کچے راستے جو دیہاتوں کی طرف لے جاتے ہیں، یا تھر پارکر میں ریت پر بنے وہ راستے جو دور دراز دیہاتوں کی طرف جاتے ہیں، یا بلوچستان میں وہ گزرگاہیں جہاں کبھی سڑک تھی ہی نہیں۔ یقین کیجئے وہ سب راستے کراچی کی ماڑی پور روڈ سے بہتر ہیں۔

آپ اندازہ کیجئے بیچ سڑک میں ایسے ایسے کھڈے موجود ہیں جہاں گاڑی روک کر ریورس کر کے دائیں بائیں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک کھڈا اگر دائیں جانب ہے تو دوسراابھار بائیں جانب۔ آگے چلنے والی بس یا کنٹینر کو دیکھ کر کئی بار لگتا ہے کہ اب الٹا کہ اب گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ سڑک پہ دو چار یا دس بارہ جگہ پہ ایسا ہے بلکہ پوری کی پوری سڑک ہی ایسی ہے، دس کلومیٹر کے ٹکڑے سے گزرنے میں گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں جو سیاح ایک بار یہاں سے گزر ے گا دوبارہ یہاں نہ آنے کا تہیہ کر لے گاجیسا کہ میں نے بھی کیا۔

یہ ماڑی پور روڈ صرف سیاحوں کی گزر گاہ ہی نہیں ہے بلکہ انڈسٹریل ایریا ہونے کے باعث معاشی سرگرمیاں بھی اسی سڑک کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔ یہاں بڑے بڑے گودام اور چھوٹی چھوٹی کئی انڈسٹریاں ہیں۔ یہاں کراچی انٹرنیشنل کنٹینرز ٹرمینل بھی واقع ہے یوں یہ ایک طرح سے ملک بھر کی امپورٹ کا مرکز بھی ہے۔ ماہی گیروں کا مال بھی اسی سڑک کے ذریعے شہر پہنچتا ہے۔ حیرت ہے وہ ملک جو تجارت کے لیے چین کے ساتھ مل کے سی پیک بنا رہا ہے وہ پاکستان پندرہ کلو میٹر کا ٹکرا بنا کر اپنے تاجروں کو ذراسی سہولت نہیں دے سکتا؟

مبارک ویلچ بلوچ ماہی گیروں کاایک گائوں ہے۔ یہ لوگ کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں، کھلے سمندر میں مچھلیاں پکڑتے اور منڈی میں فروخت کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ جون جولائی اور اگست میں جب سمندر غصیلہ اور بے ترتیب ہوتا ہے تو چھوٹے ماہی گیر اپنی کشتیوں کو سمندر میں لے کر نہیں جاتے ہیں اور ستمبر کا انتظار کرتے ہیں کہ جب سمندر اپنے ڈھب پہ آ جائے۔ یوں غریب ماہی گیروں کے لیے گرمیوں کے چند مہینے معاشی طور پہ کافی سخت ہوتے تھے۔ پھر مصطفی کمال نے یہاں سڑک بنا دی۔ اچھے سیاحتی مقامات کو ترسے کراچی کے شہریوں کو ایک سیاحتی مقام مل گیا۔ سمندر صاف اور ساحل خوبصورت ہونے کے باعث شہریوں کے قافلے وہاں پہنچنے لگے، دیکھتے ہی دیکھتے مبارک ویلج آباد ہونے لگا۔ گائوں کے لوگوں نے وہاں واش رومز بنا دیے، چھوٹے چھوٹے عارضی ہٹ بنا کر سیاحوں کو سہولتیں دینے اور پیسے کمانے لگے۔ ایک دو افراد اونٹ سجا کر وہاں لے آئے اور بچوں کو سواری کرانے لگے۔ ایک آدمی از خود گاڑیوں کی حفاظت پر معمور ہو گیا اور ہر گاڑی سے سو پچاس کمانے لگا۔ شام میں واپس لوٹنے والوں کے لیے وہاں کے بچے بوتلوں میں پانی بھر کے لاتے اور گاڑیوں میں بیٹھنے سے پہلے پائوں سے ریت چھڑانے میں مدد کر کے دس بیس روپے کما نے لگے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں اچھی خاصی معاشی سرگرمی پیدا ہو گئی۔ وہاں کے ماہی گیر وں کو مئی سے ستمبر تک کے لیے ایک اچھا روز گار مل گیا۔ پچھلے چار سال سے میں جب بھی فرصت سے کراچی آتا ہوں، مبارک ویلج ضرور جاتا ہوں۔ اس گائوں سے ایک اُنسیت ہو گئی ہے۔ خوبصورت نیلا سمندر اور سمندر کے کنارے پر بسا سادہ سا گائوں دل موہ لیتا ہے۔ یہاں آ کر کنارے پر بیٹھ جائیے یا کشتی لے کر بیچ سمندر چلے جائیے، فطرت کے نظاروں سے ایسی توانائی ملتی ہے کہ مہینوں کی تھکاوٹ دور ہو جائے۔ مسلسل وہاں جانے کے باعث کئی لوگوں سے دوستی ہو گئی ہے۔ خدا گنج، دلبر چاچو، سلیم اور نوجوان حیدرسبھی بہت محبت سے خوش آمدید کہتے ہیں۔

اس بار میں مبارک ویلج گیا تو دلبر چاچو سمیت بہت سے لوگ افسردہ تھے، کہنے لگے سیاحوں نے یہاں آنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟ میں نے بتایا سڑک بہت خراب ہے، گاڑیاں نہیں گزر سکتیں۔ کہنے لگے مصطفی کمال نے ہمارے گائوں تک آنے والی طویل سڑک بنا دی تھی تو یہ حکومت چھوٹی سے ماڑی پور روڈ کیوں نہیں بنا دیتی۔ میں نے دل میں سوچا یہ بہت ہی مشکل سوال ہے اور یہ بات دلبر چاچو اور خدا گنج جیسے سادہ ذہنوں کو نہیں سمجھائی جا سکتی۔ انہیں نہیں بتایا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی کراچی پر حکومت نہیں کرتی، انہیں نہیں بتایا جا سکتا کہ کراچی کا کوئی وارث نہیں۔ انہیں نہیں سمجھایا جا سکتا کہ کراچی سے تحریک انصاف کے چودہ میں سے دس ایم این اے ڈیفنس میں رہتے ہیں، انہیں مبارک ویلج میں بسنے والے مچھیروں سے کیا مطلب؟ کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ جانے ماڑی پور روڈ کے دونوں جانب سیاحوں کو اپنا مال بیچ کر گزارا کرنے والے چھوٹے دکانداروں کا کاروبار کیوں تباہ ہو رہاہے۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ سڑک بنا کر معاشی سر گرمی بحال کرے۔

کراچی کا سی ویو پہلے ہی دیکھنے کے قابل نہیں رہا اب ماڑی پور روڈ کی تباہی سے دیگر ساحلوں کی سیاحتی سرگرمیاں بھی ماند پڑ چکی ہیں۔ پورا کراچی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے مگر سندھ حکومت کے لیے کراچی صرف شاہراہ فیصل کا نام ہے۔