نواز شریف کی واپسی اتنا بڑا سیاسی موضوع کیوں ہے، ن لیگ کے لیے تو چلیں ہے لیکن کیا تحریک انصاف کے لیے بھی اتنا ہی بڑا موضوع ہے؟
پچھلے چھ مہینے سے نواز شریف دانستہ طور پر مسلسل یہ تاثر دے رہیں آج آئے کہ کل آئے۔ یہ تاثر قائم کرنے کے لیے وہ اپنے رہنمائوں اور لندن میں مقیم صحافیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ پچھلے سال اگست سے لیکر اب تک صحافیوں اور پارٹی رہنمائوں میں سے جو بھی ان سے ملاقات کرتا ہے وہ یہ تاثر لیکر لوٹتا ہے کہ نواز شریف چند ہفتوں میں وطن واپس آ رہے ہیں۔ گذشتہ برس اگست اور ستمبر میں جن صحافیوں نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی وہ یہی تاثر لے کر باہر نکلے کہ نواز شریف اکتوبر میں وطن واپس چلے جائیں گے اور یہ کہ اس سلسلے میں ان کی چند انتہائی اہم اور کامیاب ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ صحافیوں نے تاثر لیا کہ نواز شریف کے معاملات کہیں طے پا گئے ہیں، اکا دکا چیزوں پر بات ہونا باقی ہے اور بس اب نواز شریف کی پاکستان واپسی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
اکتوبر گزر گیا مگر نواز شریف واپس نہ آئے پھر جاوید لطیف کی نواز شریف سے ملاقات ہوئی۔ لیگی رہنما جاوید لطیف نے بیان دیا کہ نواز شریف سے ان کی بات ہوئی ہے اور وہ بہت جلد وطن واپس آ رہے ہیں۔ جاوید لطیف کی اس گفتگو پر ٹاک شوز ہونے لگے، چند دن خوب ہلا گلا رہا، خود ان سے بھی کئی لوگوں نے پوچھا واپسی کی تاریخ کیا ہے، انہوں نے تاریخ تو نہ بتائی مگر اسی اعتماد کے ساتھ دہراتے رہے کہ 2021ہی میں واپس آئیں گے۔
2021 کا اختتام ہوا تو ایاز صادق میدان میں آئے۔ انہوں نے فرمایا نواز شریف اتنی جلدی واپس آ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے میں بیس جنوری کو لندن جائوں اور انہیں اپنے ساتھ ہی واپس لے آئوں۔ کل بیس جنوری ہے مگر نواز شریف کی واپسی کے کوئی آثار تاحال نظر نہیں آتے۔
چند دن پہلے اخبارات میں ایک خبر چھپی کہ نواز شریف کو 23مارچ کو لانگ مارچ کے دن لاہور ائیر پورٹ اترنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وہاں پی ڈی ایم کے کارکن ان کا والہانہ استقبال کریں گے اور لانگ مارچ ان کی قیادت میں اسلام آباد جائے گا۔ اخباری خبر کے مطابق نواز شریف نے اس تجویز کو پسند کیا اور حتمی غور کا وعدہ بھی کیا۔ لیکن اس خبر میں اس منصوبہ بندی کا کوئی ذکر نہ تھا کہ اگر لاہور ائیر پورٹ سے انہیں گرفتار کر لیا گیا تو کیا ہو گا۔
حال ہی میں ایک لیگی ایم پی اے نواز شریف سے ملے، نواز شریف نے ان کے کان میں اپنی واپسی کی تاریخ 10مارچ بتائی ہے لیکن نواز شریف کی طرف سے دی گئی یہ تاریخ بھی جاوید لطیف اور ایاز صادق کو دی گئی تاریخوں کی طرح ہی کی ایک تاریخ معلوم ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا جاوید لطیف اور ایاز صادق نے جھوٹ بولا تھاکہ نواز شریف واپس آ رہے ہیں یا پھر نواز شریف سیاسی فائدے کے لیے ان سب سے کھیل رہے ہیں۔ مجھے دوسری بات حقیقت کے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔ جاوید لطیف اور ایاز صادق نے وہی بتایا جو انہیں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں اور بات چیت سے تاثر ملا۔ شاید یہی نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ وہ چاہتے ہیں ان کی واپسی مسلسل زیر بحث رہے۔ وہ چاہتے ہیں ان کے کارکنوں کے حوصلے پست نہ ہوں، وہ مسلسل یہ تاثر دیتے رہیں کہ ان کے معاملات طے پا گئے ہیں بس ایک دو چھوٹی چھوٹی رکاوٹوں کے بعد وہ کسی بھی وقت واپس آ سکتے ہیں۔ اس حکمت عملی کے ذریعے وہ اپنے کارکنوں کو متحرک رکھنا چاہتے ہیں کہ ان کی آس نہ ٹوٹے، ان کا ووٹ بنک خراب نہ ہواور کارکن ان کے ساتھ جڑے رہیں۔
موجودہ حالات میں نواز شریف کی حکمت عملی درست معلوم ہوتی ہے، ڈیل کا تاثر دے کر وہ اپنا نقصان نہیں فائدہ کر رہے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کیا کر رہی ہے، کیا تحریک انصاف کے لیے بھی نواز شریف کی واپسی سب سے بڑا سیاسی موضوع ہے۔
جہاں تک میں صورتحال کا ادراک رکھتا ہوں اگلا انتخاب نواز شریف کی واپسی یا ڈیل پر نہیں ہو گا۔ اگلا الیکشن مہنگائی اور تحریک انصاف کی کارکردگی پر ہونا ہے۔ تحریک انصاف سمجھتی ہے صحت کارڈ کی بنیاد پر الیکشن جیت جائے گی، اسے لگتا ہے احساس پروگرام اسے الیکشن جتوا دے گا۔ یہ سوچنے کی غلطی ماضی میں دوسری جماعتیں بھی کر چکی ہیں۔ 2013 میں میری ملاقات خورشید شاہ سے ہوئی، انہوں نے مجھے جمع تفریق کے بعد حساب لگا کر بتایا کہ کتنے لوگ بے نظیر انکم سپورٹ سے مستفید ہو رہے ہیں، کتنے گھرانوں کے افراد کو سرکاری ملازمتیں دی گئی ہیں، کتنے لوگ کس مد میں نوازے گئے ہیں اور یہ کہ حکومت بنانے کے لیے کتنے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے، بیٹھے بیٹھے محض پندرہ منٹ میں انہوں نے مجھے پیپلزپارٹی کی حکومت بنا کر دے دی تھی۔
آج تحریک انصاف بھی انہی لائنز پر سوچ رہی ہے لیکن رائے عامہ گورننس اور معاشی حالات سے بنتی ہے۔ انتخابات سے پہلے ایک ہوا چلتی ہے وہ ہوا بڑے بڑوں کو اڑا کر لے جاتی ہے، یہ ہوا مخالفت میں چل جائے تو 2008 میں ق لیگ پرفارمنس کے باوجود انتخابات ہار جاتی ہے اور موافقت میں چل جائے تو کمزوریوں کے باوجود تحریک انصاف 2018 کا انتخاب جیت سکتی ہے۔ اب یہ فیصلہ حکومت وقت نے خود کرنا ہے کہ ہوا کس کے موافق ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ اگر شریف خاندان کے چار بڑے سیاست سے باہر ہو جائیں تو عوام کے پاس کوئی آپشن نہ رہے گا اور دوبارہ انتخاب جیتا جا سکتا ہے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر صدارتی نظام کی بحث نے زور پکڑ لیا ہے۔ مہم چلانے والوں کے نزدیک اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ اور صدارتی نظام کا قیام ملک کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے نا گزیر ہے۔ اب یہ معلوم نہیں یہ محض کسی کی خواہش ہے یا اس مہم کے پیچھے سنجیدہ فکر کارفرما ہے۔