چلیے چھوڑیے بجٹ کو، بہت بحث ہو گئی اس پر، پچھلے دو ہفتے سے میں بھی بلا ناغہ بجٹ پر ہی پروگرام کر رہا تھا۔ معاشی تجزیہ کار جو تصویر کھینچ رہے ہیں اسے سن کر تو ڈپریشن ہونے لگتا ہے۔ ڈپریشن قوت مدافعت کے لیے نہایت مضر ہے۔ ویسے بھی کورونا کے حالات میں قوت مدافعت کا بحال رہنا بہت ضروری ہے۔ سنا ہے دو ہفتے کا لاک ڈائون پھر آ رہا ہے۔ لہذا بجٹ کے اعدادووشمار میں الجھ کر سر کھپانے کے بجائے یہ سوچیں کہ اگلے دو ہفتے میں ورک فرام ہوم کے ساتھ ساتھ ذہنی آسودگی کے لیے آپ کو کیا سرگرمی اختیار کرنی چاہیے۔
کیا آپ نے کبھی کچن گارڈننگ جیسی شاندار سرگرمی کے بارے میں نہیں سوچا۔ کیا آپ نے کبھی نہیں سوچا کہ آپ کو گھر کے استعمال کی سبزیاں خود اگانی چاہیں۔ آج سے سات سال پہلے میں جس گھر میں رہتا تھا وہاں مجھے کچی زمین دستیاب نہ تھی۔ سبزیاں اگانے کا شوق پیدا ہوا تو بازار سے کچھ گملے، پنیریاں اور بیج خرید لایا۔ سبزیاں اگائیں تو تجربہ تقریبا ناکام ہو گیا۔ گملوں اور کیاریوں میں ایک تو پودوں کی پوری گروتھ نہیں ہوئی، دوسرا پودوں پر کیڑے مکوڑوں نے حملہ کر دیا، پورے سیزن کے بعد دو چار ٹماٹر، ایک دو ٹنڈے اور پالک کے چند پتے ہاتھ آئے۔ نہ تو ٹنڈا اپنے اصل سائز کو پہنچا، نہ پالک کے پتے۔ نرسری جا کر مشورہ کیا تو سننے کو ملا کہ گملوں میں تو سبزی کا یہی حال ہو گا، سبزی تو آپ کو زمین سے ملے گی۔ مختصر یہ کہ دو تین مختلف جگہوں سے ایسے ہی حوصلہ شکنی کی گئی۔ چھت پہ لگایا گیا چھوٹا سے باغ اجڑ گیا اور سبزی اگانے کا شوق کچھ عرصے کے لیے ماند پڑ گیا۔
2014 میں نیا گھر بنایا تو وہاں کچھ کچی زمین دستیاب ہوئی۔ اس میں لیموں، انار، انجیر، مورنگا (جس کا مقامی نام سوہانجناں ہے)، امرود، کچھ پھولدار پودے، گلاب، موتیا، نمائشی کھجور وغیرہ لگا دی، اب لیموں کا پودا ہر سال اتنے لیموں دیتا ہے کہ ان کا رس سال بھر کے لیے فریز کیا جا سکے۔ درخت سے لٹکے خوبصورت انار بھی دل لبھا رہے ہیں جن کا پھل پکنے کے قریب ہے۔ مورنگا کی خوبیوں سے جو لوگ واقف ہیں انہیں اندازا ہو گا کہ گھر میں اس کا درخت ہونا نعمت سے کم نہیں۔ جس کی جڑ سے لیکر پتے، پھول، پھل اور پھلیاں سب کچھ کھایا جاتا ہے اور افادیت میں بے مثال ہے۔ لہذا اس درخت سے ہم اور ہمسائے سبھی چند سال سے مسلسل فیض یاب ہو رہے ہیں۔ جامن اور امرود کا پودا البتہ بعد میں لگایا شاید سال بھر میں پھل دینے لگے۔
نیا گھر بنانے کے بعد یہ سب پودے تو لگا دیے لیکن سبزی کے لیے پھر جگہ نہ بچی۔ کسی سے مشورہ کیا اور چھت پر مستری سے آٹھ فٹ ضرب تین فٹ کی تین کیاریاں بنوا لیں جن کی گہرائی ڈیڑھ فٹ رکھی گئی۔ ہمت کر کے ایک بارپھر اس میں سبزی لگا دی۔ اس بار بھنڈی نے تو اچھا پھل دیا لیکن ٹینڈا اور کریلا اپنے اصل سائز کو نہ پہنچا اور چھوٹی عمر میں ہی پک کے گرنے لگاجبکہ بینگن کے پودے پر کیڑے کا شدید حملہ ہو گیا۔ کچھ ہی دن میں ٹینڈے اور بھنڈی کا پودا بھی کیڑوں کے حملے میں آ گیا۔ نرسری میں جا کر بپتا سنائی تو اس نے کیڑے مار سپرے دے دیا اور کھاد کا ایک پیکٹ۔ کھاد ڈالنے اور سپرے کرنے سے کچھ فائدہ تو ہوا لیکن ذہنی طور پر تسلی نہ ہوئی کیوں کہ گھر میں سبز ی اگائی اور وہ آرگینک نہ رہی تو مشقت کا کیا فائدہ؟
اس کے بعد میں نے اس پروجیکٹ پر سنجیدگی سے کام شروع کیا جو شاید پہلے کرنا چاہیے تھا۔ میں نے ان لوگوں کو ڈھونڈنا شروع کیا جو کچن گارڈننگ کامیابی سے کر رہے تھے۔ ساتھ ہی لٹریچر پڑھنا اور یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھنا شروع کیں۔ گھر میں کھاد بنانے کے طریقے سیکھے۔ کیمیکل سے پاک آرگینک کیڑے مار سپرے تیار کیا اور ایک نئے جذبے کے ساتھ دوبارہ سبزیاں اگا دیں۔ اب گھر میں روٹین بن چکی ہے۔ گرین کچن ویسٹ یعنی سبزیوں، پھلوں اور انڈوں کے چھلکے کچرے میں نہیں پھینکے جاتے بلکہ مخصوص مٹی کے برتنوں اور خالی گملوں میں ڈال دیے جاتے ہیں جس سے مٹی کی آمیزش کے ساتھ دو سے تین مہینے میں شاندار اور نہایت کارآمد آرگینک کھاد تیار ہو جاتی ہے۔ نیم کے پتوں کو ابال کر سپرے بنا لیا جاتا ہے جس کا کڑوا ذائقہ کیڑوں کو پسند نہیں آتا اور وہ اس سے دور رہتے ہیں۔ کچھ اور آرگینک نسخے بھی ہیں جن کے بارے میں آپ کو یو ٹیوب سے کافی معلومات مل سکتی ہیں۔ میری کیاریوں میں اس وقت کریلے، ٹینڈے اور شملہ مرچ کی چھوٹی مگر شاندار فصل لہلہا رہی ہے جبکہ بھنڈی چند دن میں تیار ہو جائے گی۔ ہری مرچ، پودینہ اور بینگن اس کے علاوہ گملوں میں لگائے گئے ہیں۔ سردیوں میں آرگینک پالک، میتھی اور مٹر کے جس ذائقے اور غذائیت سے میں لطف اندوز ہوتا ہوں اس کا کوئی ثانی نہیں۔
چھت پر تیار کی گئی کیاریوں اور ان سے حاصل ہونے والی فصل کی چند تصویریں میں اس کالم کے ساتھ ٹویٹر اور فیس بک پہ لگا دوں گا جس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ کیاریاں چھت پر اس انداز میں تیار کی گئی ہیں کہ وہ زمین سے اونچی بھی رہے اور پودے کو مٹی کی مطلوبہ گہرائی بھی مل رہی ہو۔
آپ کو تین چیزوں کی ضرورت ہے، مٹی کی کیاری، گھر میں تیار کی گئی کھاد، اور گھر میں تیار کیا گیا کیڑے مار سپرے۔ اگرچہ آرگینک کھاد اور سپرے بازار سے بھی تیار حالت میں مل جاتا ہے لیکن گھر میں تیار کر لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ کچن گارڈننگ ایک شاندار سرگرمی ہے۔ اس سے آپ کو گھر کی چھت پر تازہ، کیمیکل سے پاک اور صاف پانی میں تیار ہوئی سبزی بھی مل جاتی ہے اور اپنی اگائی ہوئی سبزی اپنے ہاتھ سے توڑ کر کھانے کا جو لطف آ پ اٹھاتے ہیں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس کے علاوہ جو وقت آپ پودوں کے ساتھ گزارتے ہیں اس سے ٹینشن اور ڈپریشن سے نجات ملتی ہے جو لاک ڈائون میں ہم سب کے لیے ضروری ہے۔