شہباز شریف کی گرفتاری کو سیاسی انتقام قرار دینے والے اُن سوالوں کا جواب دینے میں کیوں دلچسپی نہیں رکھتے جو اُن کی مبینہ منی لانڈرنگ سے متعلق کئی بار پوچھے جا چکے ہیں۔ گلگت بلتستان کے انتخابات سے جوڑ کر سیاسی گرفتاری کا شور مچانے والے پنڈتوں نے آج تک ایک بار بھی کیوں نہیں کہاکہ وہ کسی نثار گل کو نہیں جانتے اور اگر جانتے بھی ہیں تو وہ گڈ نیچر کمپنی کا مالک نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو اس کمپنی سے کوئی ٹرانزیکشن شریف خاندان کی کمپنیوں کے ساتھ نہیں ہوئی۔ حیرت ہے شہباز شریف کی گرفتاری کو سیاسی قرار دینے والے یہ تصدیق یا تردید کیوں نہیں کرتے کہ ملک علی احمد سلمان شہباز کا کلاس فیلو تھا یا نہیں، وہ شہباز شریف کا ڈائریکٹر سٹریٹیجی اور پالیسی تھا یا نہیں اور یہ کہ وہ یونیٹاس اور جی این سی نامی فرنٹ کمپنیوں کا مالک اور ڈائریکٹر تھا یا نہیں؟
دن میں کئی کئی بار پریس کانفرنسز کر کے شہباز شریف کی گرفتاری کا شور مچایا جا رہا ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ کوئی بھی لیگی رہنما اس سوال کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں کہ تب کے وزیر اعلی شہباز شریف کا ڈائریکٹر سٹریٹیجی اور پالیسی ملک علی احمد ان کے کاروباری بیٹے سلمان شہباز کے ساتھ 21مارچ 2016 کو دبئی، 23مارچ 2017 کو پھر دبئی، 15 مئی 2018 کو قطراور 26 ستمبر 2018 کو سعودی عرب کا کاروباری دورہ کیوں کر رہا تھا؟
حیرت کی بات ہے آج تک کوئی ایسی لیگی شخصیت سامنے نہیں آئی جو سینہ ٹھوک کراور نام لے کر کہے کہ مسرور انور اور شعیب قمر کیش بوائز نہیں تھے اور وہ نثار گل کی کاغذی کمپنی جی این سی کے اکائونٹس سے کروڑں روپے نکال کر شریف خاندان کے ذاتی اکائونٹس میں منتقل نہیں کرتے رہے۔ کاش کہ احسن اقبال کسی روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کریں کہ میں چیلنج کرتا ہوں مسرور انور اور شعیب قمر نامی اشخاص شریف گروپ کے ہیڈ آفس 55-K ماڈل ٹائون میں ملازم نہیں تھے یا اگر تھے بھی تو ان افراد نے اپریل 2017 میں 16.3 ملین روپے نثار گل کی کاغذی کمپنی جی این سی سے نکلوا کر شہباز شریف کے اکائونٹ میں منتقل نہیں کیے تھے۔ کاش کہ کسی روز تہمینہ درانی ٹی وی یا ٹویٹر پر آئیں اور اعلان کریں کہ میں چیلنج کرتی ہوں کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں Whispering Pine نامی ریزورٹ میں میرے لیے ولا نمبر 19 اورکاٹیج نمبر23 خریدنے کے لیے جو پیسے استعمال ہوئے وہ کاغذی کمپنی جی این سی سے شہباز شریف کے اکائونٹ میں منتقل نہیں ہوئے تھے۔ اس سے بھی زیادہ اچھا ہو گا کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے لیے خریدے گئے ولاز کی منی ٹریل جاری کر دیں۔ یوں ناقدین کے منہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے اور شہباز شریف کی بے گناہی کو کم از کم ایک دلیل بھی مل جائے گی۔ کاش وہ یہ بھی بتائیں کہ وہ فضل داد عباسی کو نہیں جانتیں جو ان کے لیے خرچے کے پیسے پہنچانے کا کام کرتا تھا۔
کاش کسی روز ایسا ہو حمزہ شہباز میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتائیں کہ 28 اکتوبر2016 کو پچیس ملین روپے جو میری بینک اسٹیٹمنٹ میں دیکھے جا سکتے ہیں جس سے میں نے پے آرڈر بنوا کر جوہر ٹائون میں پلاٹ نمبر 61-A، 62، 63 خریدے وہ مسرور انور نے میرے اکائونٹ میں کاغذی کمپنی سے نکلوا کر جمع نہیں کروائے تھے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پیسے تو فلاں جگہ سے آئے تھے۔ کاش وہ یہ بھی کہیں کہ شہزاد اکبر ملک مقصود کا کئی بار ذکر کر چکے ہیں آج میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ملک مقصود 55-K ماڈل ٹائون میں چپڑاسی کی حیثیت سے کام نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اس کی مقصود اینڈ کمپنی کے نام سے کوئی کمپنی تھی اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ مقصود اینڈ کمپنی پاکستان کے کسی ادارے میں رجسٹرڈ نہیں یہ محض شہزاد اکبر کی ذہنی اختراع ہے۔
کاش کسی روز ایسا ہو کہ سلمان شہباز میڈیا پر آئیں اور بتائیں کہ گڈ نیچر کمپنی اور رمضان شوگر مل کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کہیں کہ میں واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں 2016 سے 18 کے دوران گڈ نیچر کمپنی نے ایک نجی بینک سے 900 ملین روپے کا قرضہ نہیں لیا، اگر لیا بھی ہے تو اس کے لیے رمضان شوگر مل نے بینک گارنٹی نہیں دی اور یہ کہ اگر یہ قرضہ لیا بھی گیا ہے تو یہ تمام پیسے قسط وار شریف خاندان کے اکائونٹس میں منتقل نہیں ہوئے نہ ہی ان کے استعمال میں آئے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سب مخصوص سوالوں کا جواب دے کر سرخرو ہونے کی بجائے پریس کانفرنس میں باتیں ہوتی ہیں کہ شریف خاندان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہاہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نیب نیازی گٹھ جوڑ ہے جو احتساب کے نام پر انتقام لے رہا ہے۔ احسن اقبال ہوں یا مریم اورنگزیب، مریم نواز ہوں یا شہباز شریف، کسی نے بھی آج تک نام لے کر گڈ نیچر کمپنی کے وجود اور اس کے شریف خاندان کے ساتھ تعلق کی تردید نہیں کی۔ یہ کہنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے کہ میں نے دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کا آج تک کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔ مگر جناب جو ثبوت دیے گئے ہیں آپ ان کا جواب دینا کیوں ضروری نہیں سمجھتے؟
ایک اور سوال بھی ہے کہ شریف خاندان کا کوئی بھی فرد محض اپنی مرضی اور اعتماد کے اینکر کے علاوہ کسی اور کو انٹرویو کیوں نہیں دیتا۔ وہ کیوں کسی ایسے شخص کو انٹرویو نہیں دینا چاہتا، جو ان سے گڈ نیچر کمپنی، مسرور انور، نثار گل اور فضل داد عباسی کے بارے میں سوال کرے۔ اپنی مرضی کا بیانیہ، اپنی مرضی کے سوالات اور اپنی مرضی کے اینکرز۔ سیاسی انتقام کا شور مچانے کی بجائے بہتر ہے شریف خاندان کا کوئی شخص آگے آئے، کسی غیر جانبدار اینکر کو چند مخصوص سوالوں کا جواب دے اور سرخرو ہونے کا موقع پائے۔