دائروں میں پھرتے رہنے سے سفر کب کٹتا ہے؟ ناکام پالیسیوں کو دہراتے رہنے سے مسائل کب حل ہوتے ہیں، پرانی ناکام حکمت عملی پر چلتے رہنے کے مطالبے میں کیا منطق ہے؟ وہ جو کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکے، اپنی ہی پالیسیوں کو بطور مثال پیش کرنے پر بضد ہیں۔ کوئی پوچھے اگر وہ حکمت عملی اتنی ہی اچھی تھی تو کیوں حالات نہ بدلے؟
2018 میں حکومت بننے کے بعد اپوزیشن رہنما تسلسل سے یہ بات کہتے رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت دیر کر رہی ہے اسے فورا آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے۔ یعنی پچھلی حکومت ایک ایسی معیشت چھوڑ کے گئی تھی جس کے پاس آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ اپوزیشن یہ بات بھی جانتی ہے کہ جب بھی کوئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس جاتی ہے اس کے سامنے سخت ترین شرائط ہوتی ہیں جنہیں ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یقینا زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے بحث مباحثے کی تھوڑی بہت گنجائش ہوتی ہے جس سے ہر حکومت فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے تا کہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ کم پڑے اور انہیں غیر مقبول فیصلوں کی سیاسی قیمت کم سے کم ادا کرنی پڑے۔
حیرت ہے اپوزیشن یہ سب باتیں جانتی ہے۔ اگر 2018 میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنتی تو یقینا وہ بھی آئی ایم ایف پروگرام میں جاتی اور اس کے سامنے بھی یہی شرائط ہوتیں۔ ان شرائط کو نرم کرنے کے لیے ایسے ہی بحث ہو رہی ہوتی، آئی ایم ایف کی کچھ باتیں مان کر ایسے ہی ایک منی بجٹ آتا اور وہی دلائل دیے جا رہے ہوتے جو آج دیے جا رہے ہیں۔
کینیڈا میں حالیہ دوسال کے دوران مہنگائی کی شرح دگنی ہو گئی ہے۔ وہاں کے معاشی تجزیہ کاروں سے میں نے پوچھا کیا اپوزیشن کی جماعتیں مہنگائی کو بنیاد بنا کر سیاست کر رہی ہیں، جواب ملا ایسا نہیں ہے۔ میں نے دوبارہ سوال کیا ایسا کیوں ہے، جواب ملا اپوزیشن کی جماعتیں جانتی ہیں کہ مہنگائی حکومتی اقدامات کی وجہ سے نہیں عالمی حالات کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ اس لیے وہ مہنگائی کو سیاست کا موضوع نہیں بنا رہیں۔
ہمارے ہاں مہنگائی مارچ ہو رہے ہیں، مہنگائی کی بنیاد پر نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جارہا ہے، مہنگائی کے موضوع پر ہی لانگ مارچ کی تاریخ دے دی گئی ہے۔ متبادل آپشن پر بات نہیں ہوتی۔ مولانا فضل الرحمن سے پوچھیں آپ کو حکومت دے دی جائے تو کیا کریں گے یا آپ کی حکومت ہوتی تو عالمی معاشی حالات کی روشنی میں کیا کرتے تو مولانا اور ان کی جماعت کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اپوزیشن کے پاس کوئی متبادل معاشی پالیسی موجود نہیں ہے۔ یعنی معیشت جانے اور اسحاق ڈار جانیں، آج بھی ن لیگ کی حکومت بن جائے تو اسحاق ڈار ہی آئیں گے اور معیشت کو ویسے ہی چلائیں گے جیسے پچاس سال سے چل رہی ہے۔
مفتاح اسماعیل میرے ساتھ شو میں تھے، وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جو دلیل کے ساتھ بات کرتے اور منطقی بات کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ شو میں انہوں نے تسلیم کیا پاکستان کا امپورٹ بل زیادہ امپورٹ کے باعث نہیں بلکہ امپورٹ کی جانیوالی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بڑھا۔ یقینا جب آئل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا، کوکنگ آئل کا خام مال مہنگا ہو جائے گا، فریٹ چارجز بڑھیں گے تو یقینا امپورٹ بل میں اضافہ ہو جائے گاجو کہ ہوا۔ وہ کنٹینر جو تین ہزارڈالر میں آیا کرتا تھا اب اس کا کرایہ سولہ ہزار ڈالر ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود اپوزیشن نے شور مچارکھا ہے پاکستان کا امپورٹ بل بڑھ گیا۔ مفتاح اسماعیل یہ بھی تسلیم کرتے ہیں پاکستان نے اس سال ریکارڈ ٹیکس اکٹھا کیا ہے بلکہ اس سال پہلی مرتبہ ہدف سے زیادہ ٹیکس کولیکشن ہو رہی ہے۔
یہ الگ بات کہ پاکستان کئی اقدامات آئی ایم ایف کے کہنے پر کر رہا ہے لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ صحیح کر رہا ہے یا غلط؟ کئی معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف کے کہنے پر ٹیکس بیس بڑھا رہا ہے تو غلط نہیں کر رہا یہ اقدامات تو پاکستان کو آئی ایم ایف کے کہے بغیر بھی کرنے چاہییں۔ پاکستان کی اکانومی کو دستاویزی شکل میں لانا اور ٹیکس پئیر کو ریکارڈ کا حصہ بنانا پاکستان کی از خود ترجیح ہونی چاہیے۔
سٹیٹ بنک کو خود مختاری دینے کافیصلہ بھی اگرچہ آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا گیا لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ صحیح فیصلہ نہیں ہے؟ وزیر اعظم عمران خان نے پہلے ہی دن سے اداروں کی خود مختاری کی بات کی، وہ اس بات کے حامی تھے کہ سٹیٹ بینک کو اپنے فیصلے خود کرنے چاہیے، روپے کو اپنی حیثیت کا تعین بھی خود کرنا چاہیے۔ اگر روپے میں سکت نہیں ہے تو مصنوعی طور پر اسے مستحکم رکھنا معیشت کی کوئی خدمت نہیں۔ اس کے باوجود جو اقدامات اب تک اٹھائے گئے ہیں وہ معیشت کو صحیح سمت پر ڈالنے کے لیے انتہائی نا کافی معلوم ہوتے ہیں، بے شمار تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اکا دکا تبدیلیوں کے سوا معیشت کا باقی ڈھانچہ وہی ہے جو پچاس سال سے چلا آ رہا ہے۔
حکومت کی معاشی پالیسیاں روپے کی قیمت کو سازگار ماحول فراہم نہیں کر سکیں۔ روپے کے مسلسل دبائو میں ہونے اور گراوٹ کا شکار ہونے کے باعث پاکستان میں مہنگائی کا اثر زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پٹرول کا موازنہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ درست معلوم نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے ہمارے ہاں پٹر ول سستا ہے مگر یہ موازنے کا ایک رخ ہے، ادھورے موازنے سے صورتحال کا صحیح ادراک نہیں ہوتا۔ روپیہ غیر مستحکم ہونے سے مہنگائی کا اثر دنیا کے باقی ممالک کی نسبت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔
مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں معیشت جیسے موضوعات پر صحت مند اور تعمیری گفتگو کاماحول نہیں۔ معیشت اور مہنگائی کو سیاسی فائدے کا سب سے بڑا موضوع بنا لیا گیا ہے۔ حکومت پر عوام کا دبائو بڑھایا جا رہا ہے، آئندہ بجٹ ویسے بھی الیکشن بجٹ ہو گا جسے عوام دوست بجٹ کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی جائے گی، ایک بار پھر اصولی فیصلوں پر سمجھوتہ ہو گا اور پھر اگلی حکومت آتے ہی کہانی پھر سے شروع ہو جائے گی۔ دائروں میں پھرتے رہنے سے سفر کب کٹتا ہے؟ ناکام پالیسیوں کو دہراتے رہنے سے مسائل کب حل ہوتے ہیں؟