Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Kya Corona Ne Maeeshat Ko Bimar Kya?

Kya Corona Ne Maeeshat Ko Bimar Kya?

پچھلے گیارہ مہینے میں گیارہ سو ارب یعنی 1.1 کھرب کے ریکارڈ نوٹ چھاپے گئے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں ایک سال کی مدت میں چھاپے جانے والے زیادہ سے زیادہ نوٹ 777 ملین کے تھے جو اسحاق ڈار صاحب کے زمانے میں 2016-17 میں چھاپے گئے تھے۔ نوٹ چھاپنے سے کیا ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اگر 490 ارب روپے کے نوٹ چھاپے جائیں تو افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح ایک فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔ اب پچھلے ایک سال میں مہنگائی کتنی بڑھی ہے اس کا اندازہ آپ کیلکیولیٹر کے ذریعے لگا سکتے ہیں۔

اس حکومت کے21 ماہ کے دور میں اب تک 15 ارب ڈالر کے قرضے بڑھے ہیں جو کہ 8.5 ارب ڈالر سالانہ بنتے ہیں۔ اس سے پہلے کے دس سال میں بیرونی قرضے 4.5 ارب ڈالر سالانہ کے حساب سے بڑھے تھے۔ گویا پچھلے دو سال میں پاکستان میں سالانہ بڑھنے والے قرضے دس سال میں بڑھنے والے قرضوں کا دو گنا ہو گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ پاکستان کی آزادی سے لیکر 30 جون 2011 تک پاکستان کے مجموعی قرضے 12 ہزار 500 ارب روپے تھے جبکہ نئی حکومت کے پہلے 21 ماہ میں حکومت کے قرضے 12 ہزار 900 ارب روپے ہیں۔ یعنی آزادی کے پہلے 64 سال کے قرضوں کے مقابلے میں موجودہ حکومت کے 21 ماہ کے قرضوں کی رقم زیادہ ہے۔

اب ان قرضوں کا ایک جواب حکومت کی طرف سے یہ دیا گیا کہ ماضی کی حکومتوں کی جانب سے لیے گئے قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے لینا پڑے ہیں۔ یہ بات درست ہوتی تو حساب کتاب آسان ہو جاتا۔ یعنی حکومت نئے قرضے لیتی اور انہیں پرانے قرضوں کی قسطوں کی مد میں ادا کر دیتی یوں پاکستان کے مجموعی قرضے اتنے کے اتنے ہی رہتے۔ لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قرضے بڑھے ہیں تو "بڑھنے "کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے اگر ہزار ارب کے قرضے لیے تو 400 ارب کی قسطیں ادا کر دیں اور 600 ارب جیب میں ڈال لیے۔ جس سے قرضے بڑھ گئے۔ اس لیے یہ کہنا صریحا غلط ہے کہ قرضے اتارنے کے لیے قرضے لیے گئے۔ اگر ایسا ہوتا تو مجموعی قرضے تقریبا اتنے ہی رہتے جتنے اس حکومت کو ورثے میں ملے تھے۔ اس میں اضافہ صرف اس سود کی رقم کا ہونا چاہیے تھا جو نئے قرضوں پر ادا کرنی ہے۔

اب آئیے لوٹ مار کی سادہ اور چھوٹی سے کہانی پر۔ پچھلے چوبیس سال میں بینکوں کے ذریعے 160 ارب ڈالر ملک سے قانونی طریقے سے باہر گئے۔ ہوا یوں کہ جس کے پاس بھی جائز یا ناجائز کمائی کے روپے موجود تھے اس نے اوپن مارکیٹ سے تھوڑے تھوڑے کر کے ڈالرز خریدے، بینک میں ایک فارن کرنسی اکائونٹ کھلوایا، ڈالرز اس اکائونٹ میں رکھے اور دوسرے ملک سے جا کر نکلوا لیے۔ یوں پاکستان کا کل قرضہ تو ہے 110 ارب ڈالر لیکن اس سے زیادہ 160 ارب ڈالر اس کالے قانون کے ذریعے ملک سے باہر چلے گئے جسے کرپٹ سیاستدانوں نے اسی مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔ واضح رہے کہ غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر جانے والے 150ارب ڈالر اس کے علاوہ ہیں، جو کسی ایان علی کے ذریعے، لانچوں کے ذریعے، حوالہ ہنڈی کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے باہر گئے۔ یعنی مجموعی طور پر300 ارب ڈالر اس ملک سے لوٹ مار کے ذریعے باہر بھجوا دیے گئے اور ہم 110 ارب ڈالر کے قرضے کو بیٹھے رو رہے ہیں۔

بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت سے توقع تھی کہ ملک کو غلامی سے نکالے گی۔ لیکن صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے پچھلے سال حکومت کو پابند کیا کہ عوام سے 5500ارب روپے کے ٹیکس اکٹھے کرے۔ حکومت پہلے تو ناچاہتے ہوئے مان گئی لیکن کچھ ماہ بعد اس پر نظر ثانی کی درخواست کی تو 300 ارب کی چھوٹ مل گئی۔ طے ہوا 5200 ارب کا ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا۔ حکومت نے نئے ٹیکسز لگائے، شبر زیدی صاحب نے ٹیکس ریفارمز متعارف کرائے، کاروباری حضرات سے جھگڑا کیا، انہیں کبھی پیار سے اور کبھی غصے سے سمجھایا، کبھی خود سمجھایا اور کبھی ریاست کی دوسری طاقت ور شخصیات کا سہارا لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کل ملا کر 3900 سو ارب کا ٹیکس اکٹھا ہو پایا۔ 1300 ارب کا شارٹ فال۔ بہانہ بنا کورونا کا، کہا گیا کورونا بحران کی وجہ سے ٹیکس پورا اکٹھانہیں ہو پایا۔ ماہرین معاشیات جانتے ہیں کہ اگر کورونا نہ آتا تو بھی ٹیکس 4200 ارب روپے سے زیادہ اکٹھا نہیں ہو پا رہا تھایعنی ایک ہزار ارب کا شارٹ فال پھر بھی تھا، کورونا تو رواں مالی سال کے آخری تین ماہ میں آیا۔ لہذا عوام اور خود کو دھوکہ دینے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اب آئی ایم کی فرمائش ہے کہ اگلے سال 5100ارب روپیہ ٹیکس جمع کریں جبکہ ایف بی آر کا خیال ہے کہ 4400 ارب روپے سے زیادہ اکٹھے نہیں کیے جا سکتے۔

مجھے وزیر اعظم عمران خان صاحب کے نعرے یار آ رہے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے میں اس قوم سے 8 ہزار ارب روپیہ ٹیکس اکٹھا کر کے دکھائوں گا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ لوگ اس لیے ٹیکس نہیں دیتے کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ قرضے لینے سے ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر تو خودکشی کرنا ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ٹیکس ریفارمز لائوں گا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کرپٹ لوگوں سے پیسے نکلوا کر ملک کے قرضے اتاروں گا۔ وہ کہا کرتے تھے دوسرے ملکوں سے لوگ پاکستان میں نوکریاں کرنے آیا کریں گے۔ بیمار معیشت کو وزیر اعظم کے وعدے پورے ہونے کا انتظار ہے۔