کیسی مایوسی کی بات ہے کہ عمران خان نے بھی دوسرے ممالک کے سربراہان کی جانب سے ملنے والے تحائف کے ساتھ وہی کیا جو ان سے پہلے کے حکمران کیا کرتے تھے۔ نہ جانے امیر ملکوں کے سربراہان غریب ملکوں کے امیر لیڈرز کو تحائف دیتے ہی کیوں ہیں۔
عمران خان سے پہلے تو توشہ خانہ میں رکھے تحائف کی بندر بانٹ ہوتی ہی رہی ہے مگر اعلی اخلاقی روایات کا درس دینے والے عمران خان کوتو کچھ مختلف کرنا چاہیے تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ قانون بنا دیتے کہ توشہ خانہ کے تحائف قومی خزانہ تصور ہوں گے۔ جو بھی بیچے گا، جب بھی بیچے گا، جتنے میں بھی بیچے گا، پوری کی پوری رقم قومی خزانے میں جائیگی اور بس۔ حیرت ہے چند لاکھ روپے کی بھینسیں بیچ کررقم قومی خزانے میں جمع کرانے والے وزیر اعظم توشہ خانہ کے تحائف کے حوالے سے ایسا قانون کیوں نہ بنا سکے۔
فواد چودھری نے بہت آسانی کے ساتھ فرما دیا، وزیر اعظم کی چیزیں تھیں انہوں نے بیچ دیں تو اس میں غیر قانونی کیا ہے۔ عمران خان نے بنی گالہ میں صحافیوں کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں فرمایا کہ ان سے پہلے صرف 15 فیصد ادائیگی کر کے قیمتی تحائف کی ذاتی ملکیت حاصل کی جاسکتی تھی لیکن انہوں نے قانون میں تبدیلی کر کے اسے 50 فیصد ادائیگی سے مشروط کر دیا۔ مگر50 فیصد ہو یا 70 فیصد، سوال کاروبار کا ہے۔ جب ایک چیز حکومت سے سستی خرید کر مہنگے داموں بیچ دی جائے اور اس پر منافع کما لیا جائے تو اخلاقیات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
وزیر اعظم نے یہ تاویل بھی دی کہ جب ڈی ایچ اے میں کسی کو کوئی مکان دے دیا جاتا ہے تو چاہے اب وہ اسے فروخت کر دے یا خوداس میں رہے، اس کی مرضی ہے۔ نہیں جناب عمران خان ملک کے وزیر اعظم کا ایک عام سرکاری افسر سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور وزیر اعظم بھی وہ جو ریاست مدینہ کا وزیر اعظم ہو۔ ریاست مدینہ کے بانی ﷺ آخری کھجور بھی ریاست کے باشندوں میں تقسیم کر دیا کرتے اور ہاتھ جھاڑ کر گھر کو رخصت ہو جاتے تھے۔
عمران خان کے حامیوں کی جانب سے یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ انہیں بنی گالہ کی سڑک بنانے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی جو ان کے پاس نہیں تھے۔ سرکاری وسائل سے پیسے خرچ کر نہیں سکتے تھے، جیسے شریفوں نے رائے ونڈ اور جاتی امرا کی سڑکیں بنا کر تنقید کا سامنا کیا یا رمضان شوگر مل کے لیے نالہ بنا کر ریفرنس کا سامنا کیا۔ ایسے میں انہوں نے تحائف خرید کر بیچے اور بنی گالہ کے رہائشیوں کے لیے سڑک بنوائی۔ مگر کیا عمران خان یہ حساب دے سکتے ہیں کہ تحائف کتنے میں بیچے، سڑک بنانے پر کتنا خرچ آیا اور باقی پیسے کہاں گئے؟
عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ سے تحائف لینے اور بیچنے کے حوالے سے چہ مگوئیاں ایک عرصے سے چل رہی تھیں، تفصیلات سامنے لانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا مگر یہ کہہ کر تفصیلات سامنے لانے سے گریز کیا جا رہا تھا کہ اس سے بین الاقوامی تعلقات متاثر ہونے کا خطرہ ہے اوراہم ترین قومی راز فاش ہو سکتے ہیں۔ تین سال تک جیسے تیسے ان تفصیلات کو چھپا یا جاتا رہا، سادہ سا سوال یہ ہے کہ اگر اس میں کچھ غلط نہیں تھا تو چھپایا کیوں جاتا رہا اور یہ کیوں نہ سوچا گیا کہ جب دوسری حکومت آئے گی تو اُسے یہ معلومات عام کرنے سے کون روکے گا، تب ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیسے ہو گا۔
توشہ خانہ کے مال کو ہمیشہ سبھی نے مال مفت جان کر بے رحمی کا مظاہرہ ہی کیا ہے۔ وہ سیاسی جماعتیں جو آج عمران خان پر تنقید کر رہی ہیں وہ خود بھی 15 فیصد ادائیگیوں کے ساتھ مہنگی گاڑیوں سمیت دیگر قیمتی اشیا بے رحمی کے ساتھ ڈکار چکی ہیں اور آج 50 فیصد ادائیگی کرنے والے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے اپنے کارنامے بھول گئے ہیں۔ درست ہے کہ عمران خان کا یہ عمل قابل تنقید ہے مگر دیکھئے تنقید کر کون رہا ہے۔
توشہ خانہ سے قیمتی اشیا خریدنے اور بیچ دینے کے عمل کے دو پہلو ہیں، ایک اخلاقی اور دوسراقانونی۔ اخلاقی طور پر تو اس عمل کا دفاع کرناممکن نہیں۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا کہ موجودہ حکومت اس ضمن میں عمران خان کے خلاف کوئی ریفرنس نہیں بنا پائے گی کیونکہ جو کچھ بھی کیا گیا ہے بحرحال قانونی تقاضوں کو پورا کر کے کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کی حکومت اسے محض سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے ہی استعمال کرے گی ویسے بھی اس معاملے پر ریفرنس بنا کر اپنے ماضی کے کارناموں پر کون توجہ دلوانا چاہے گا کہ اس حمام میں سبھی ننگے رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران نے صحافیوں کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں یہ بھی کہا کہ اگر اپوزیشن کو ساڑھے تین سال کے بعد ان کے خلاف صرف توشہ خانہ ہی ملا ہے تو یہ ان کی پاک دامنی کا ثبوت ہے۔ درست ہے کہ عمران خان اقتدار چھوڑنے کے بعد کرپشن میں ویسے لتھڑے ہوئے نہیں ہیں جیسے ماضی میں لوگ ہوا کرتے تھے۔
درست ہے کہ عمران خان نے اپنی جائیدادوں میں اضافہ نہیں کیا، اپنے رشتہ داروں اوردوستوں کو نہیں نوازا، بلکہ مال بنانے کے شک میں اپنے قریب ترین دوستوں علیم خان اور جہانگیر ترین تک کو خود سے دور کر کے سیاسی طور پر نقصان اٹھایا۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ عمران خان ہی وہ وزیر اعظم ہیں جنہوں نے اخلاقیات کا سب سے زیادہ درس دیا۔ اسی لیے ان سے توقع تھی کہ وہ اس گند سے اپنا دامن صاف رکھیں گے۔ افسوس کہ وہ ایسا نہ کر سکے۔ انہوں نے خود کو کرپشن سے پاک رکھا مگر توشہ خانہ کا دھبہ لگنے سے اپنا دامن نہ بچا سکے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آئندہ دنوں میں بھی یہ الزامات ان کے صاف ستھرے کیرئیر پر سوال بن کر کھڑے رہیں گے اور انہیں احساس دلاتے رہیں گے کہ وہ توشہ خانہ کی گھڑیاں خرید کر نہ بیچتے تو اچھا تھا۔