منی لانڈرنگ قوانین کے برطانوی ماہر رچرڈ مارلے نے 3 ستمبر 2021 کو ایک بلاگ لکھا جس کا عنوان تھا " منی لانڈرنگ کے بارے میں 40 حیران کن حقائق"۔ اس بلاگ کو پڑھ کے اندازہ ہوتا ہے کہ منی لانڈرنگ کے خلاف کام کرنے والے ادارے یا تو بے بس ہیں یا ان کے پاس رقوم کی غیر قانونی ترسیل کو پکڑنے کی صلاحیت نہیں یا پھر منی لانڈرنگ کے خلاف عملی اقدامات کرنے سے مصلحتاََ گریزاں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ اداروں کی تحقیقات سے بہت حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث99 فصد لوگ کسی نہ کسی مرحلے پر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ وہ بے قصور ہیں اور ان کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔
اپنے ابتدائیے میں رچرڈ مارلے کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے منی لانڈرنگ کے قوانین بنائے اور سخت کیے گئے ہیں ویسے ویسے مجرموں نے اس نظام کو بے اثر کرنے کے لیے راستے تلاش کیے ہیں۔ اپنے اس آرٹیکل میں مصنف نے جو حقائق پیش کرتے ہیں وہ حیران کن ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہر سال گلوبل جی ڈی پی کا 2 سے 5 فیصد سالانہ منی لانڈرنگ ہوتی ہے جو کہ 800 ارب سے 2 کھرب امریکہ ڈالر بنتے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ عالمی منی لانڈرنگ کا 90 فیصد ہر سال undetected رہ جاتا ہے۔ مصنف کے مطابق منی لانڈرنگ کے خلاف کام کرنے والی 41 فیصد آرگنائزیشنز False پازیٹو رزلٹس پیدا کرتے ہیں جبکہ 48 فیصد بینکوں کے پاس اینٹی منی لانڈرنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی بوسیدہ اور پرانی ہے اور یہ کہ ہر پانچ میں سے ایک ادارہ اینٹی منی لانڈرنگ کے ریگولیشنز پر پورا ہی نہیں اترتا۔
مصنف رچررڈ مارلے نے یونیورسٹی آف میلبورن کی ایک ریسرچ کا حوالہ بھی دیا ہے جس کے مطابق اینٹی منی لانڈرنگ تحقیقات کے نتیجے میں صرف 0.1 فیصد رقم ریکور کی گئی ہے۔ یہ نتائج نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ منی لانڈرنگ جرائم کے خلاف کام کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بھی ہیں۔
آپ کے لیے شاید کچھ اور حقائق بھی حیرت کا باعث ہوں۔ برطانیہ میں ہر سال پانچ لاکھ مشکوک فنانشل سرگرمیاں رپورٹ ہوتی ہیں جبکہ thetimes.co.uk کی ایک رپورٹ کے مطابق دس سال میں صرف پانچ افرادکو منی لانڈرنگ کے الزامات ثابت کر کے سزادی جا سکی۔ یہ تمام اعداد و شمار منی لانڈرنگ کے خلاف کام کرنے والے ممالک، اداروں، ایجنسیوں اور حکومتوں کی کارکردگی پر بے شمار سوالات اٹھاتے ہیں۔
اب آ جائیے شہباز شریف خاندان کے خلاف لگنے والے منی لانڈرنگ کے الزامات پر۔ شہباز شریف اور ان کے خاندان کے چھ افراد پر منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت نیب ریفرنس پر کیس نیب عدالت لاہور میں زیر سماعت ہے۔ سلمان شہبازاور ان کی بہنیں اس کیس میں تفتیش کا حصہ نہیں بنیں جبکہ نصرت شہباز اپنے وکیل کے ذریعے ٹرائل کا حصہ بن رہی ہیں اس سے پہلے انہیں بھی اشتہاری قرار دے دیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ لاہور میں چلنے والے اس ٹرائل کا لندن میں ہونے والی تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں۔ لندن کی نیشنل کرائم ایجنسی نے اپنے طور پر سلمان شہباز کے دو اکائونٹس میں مشکوک ٹرانزیکشنز کی بنیاد پر از خود تحقیقات کا آغاز کیا اور ازخود ہی کلئیر کیا۔ یہ تحقیقات اور کلئیرنس صرف سلمان شہباز کے لیے کی گئی ہیں اس سے شہباز شریف کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا یہ موقف اپنانا کہ لندن کی عدالت اور نیشنل کرائم ایجنسی کے شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے الزامات سے بری کر دیا ہے، درست معلوم نہیں ہوتا کیوں کہ اس فیصلے میں شہباز شریف کا کوئی ذکر تک نہیں نہ ہی یہ شہباز شریف سے متعلق ہے۔
آپ کو یاد ہو گا کہ وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر اپنی پچھلی کئی تقاریر میں منی لانڈرنگ کی روک تھام اور اس کے قوانین سخت کرنے کے موضوع پر زور دے رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی جانب سے اس پر زیادہ سنجیدہ رد عمل نہیں آتا۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ غریب ملکوں سے لوٹی ہوئی رقم کی دوسرے ممالک میں ترسیل سے ان غریب ملکوں کو تو شدید نقصان ہوتا ہے جہاں سے دولت نکالی جاتی ہے لیکن جن ممالک میں یہ رقم جاتی ہے ان کی معیشت کو فائدہ پہنچتا ہے۔ برطانیہ کی بلیک اکانومی دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ غریب ملکوں سے آئے ہوئے منی لانڈرنگ کے پیسوں پر بھی انحصار کرتی ہے۔ آپ سوچیے ہر سال پانچ لاکھ مشکوک ٹرانز یکشنزکے نتیجے میں آدھی پر بھی کارروائی ہونے لگے اور غریب ملکوں کے پیسے انہیں واپس کیے جانے لگیں تو برطانیہ جیسے ممالک کی معیشت کو کتنا نقصان ہو گا۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر منی لانڈرنگ پر سزائیں پانے والے بدقسمت آخر کون ہیں؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ منی لانڈرنگ میں وہی سزائیں پاتے ہیں جن کی رقوم کی ترسیل کے دہشت گردی میں استعمال کیے جانے کے ثبوت ملتے ہیں۔ یعنی یہ سزائیں منی لانڈرنگ نہیں دہشت گردی روکنے کے لیے دی جاتی ہیں۔
رہی بات یہ کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے کتنے ثبوت موجود ہیں تو اس سلسلے میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ یہ وہ واحد کیس ہے جس میں شہباز شریف کے خلاف بینک ٹرانزیکشنز اور دیگر سیکڑوں ثبوت نیب کے پاس موجود ہیں اور اگر کسی ایک کیس میں شہباز شریف حقیقت میں مشکل میں ہیں تو وہ یہی کیس ہے۔ یہ الگ سوال ہے کہ تین سال میں شہباز شریف کے خلاف ٹرائل مکمل ہو کر فیصلہ کیوں نہ آ سکا تو اس کی وجہ ہمارا کمزور عدالتی نظام ہے جس میں بے شمار سقم موجود ہیں جس پر میں گاہے گاہے لکھتا رہتا ہوں اور آئند ہ بھی جسارت جاری رہے گی۔