دنیا کو 1930 کے بعد سب سے بڑے معاشی دبائو کا سامنا ہے۔ 2020 میں بے روزگاری کی شرح میں جس قدر اضافہ ہوا ایک سال میں اتنا کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 2020 میں گلوبل ورکنگ آورز میں 8.8 فیصد کمی واقع ہوئی جو کہ 255 ملین فل ٹائم ملازمتوں کے برابر ہے، یہ کمی 2009 میں آنے والے گلوبل فنانشل کرائسس کے اعداد وشمار سے بھی زیادہ ہے۔ دنیابھر میں 230 ملین ملازمتوں میں سے 33 ملین لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ بے روزگار ہونا دنیا کی تاریخ کا بدترین ریکارڈ ہے۔ یعنی اتنی بڑی تعداد میں لوگ کبھی ایک سال میں ایک ساتھ بے روزگار نہیں ہوئے۔ آئی ایل او کے مطابق پچھلے ایک سال میں جو رقم کاروباری گردش سے باہر نکلی ہے وہ تقریبا 3.7 ٹریلین ڈالر اور گلوبل جی ڈی پی کا 44 فیصد ہے۔ پچھلے سال خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ بے روزگار ہوئی ہیں۔ خواتین میں بے روزگاری کی شرح5 فیصد جبکہ مردوں میں 3.9 فیصد رہی ہے۔ آئی ایل او نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ 25 سال سے بڑی عمر کے لوگوں میں بیروزگاری کی شرح 3.7 فیصد رہی مگر 15 سے 25 سال کی عمر کے لوگوں میں یہ شرح 8.7 فیصد رہی۔ فوڈ سروسز کے شعبے میں 20 فیصد لوگ بے روزگار ہو گئے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال بھی 1.3 فیصد ورکنگ آورز کم ہو جائیں گے جو کہ 36 ملین فل ٹائم جابز بنتی ہیں۔
پاکستان میں جون کے مہینے میں ایک سروے آیا تھا۔ گیلپ کے اس سروے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کورونا کے باعث پاکستان میں ایک کروڑ 73لاکھ لوگ ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ تعداد ملک بھر میں بے روزگار افراد کا 28 فیصد بنتی ہے۔ گذشتہ برس یکم جون کو اسٹیٹ بنک نے کورونا کے معیشت پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک رپورٹ جاری کی تھی اس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ لاک ڈائون کی وجہ سے فیکٹریوں اور کاروباری طبقے کا کیش فلو بُری طرح متاثر ہوا ہے اور اگر یہ صورتحال جاری رہی تو کئی کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔
اسٹیٹ بنک کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کمپنیاں دیوالیہ ہونے سے بینکوں کی آمدنی متاثر ہو گی اور زر مبادلہ کے ذخائر گھٹ جائیں گے۔ اسٹیٹ بنک نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے میں روپے کی قدر میں کمی کا شدید خدشہ موجو د ہے، روپے کی قدر گھٹنے سے معاشی ترقی کی شرح بری طرح متاثر ہو گی۔ اسٹیٹ بنک کی یہ رپورٹ آنے کے آٹھ مہینے بعد آج ویسی صورتحال نہیں جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ آج کی صورتحال بہت حوصلہ افزاء ہے، وہ خدشات جو سب کے سامنے تھے خوش قسمتی سے ہم اس کا شکار نہیں ہوئے۔ پاکستان میں بے روزگاری توقع سے کم رہی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس مختلف شعبوں میں حکومتی اصلاحات کے باعث معیشت کا پہیہ بہتر انداز میں چلنے لگا۔ حکومت پاکستان نے بروقت فیصلہ کرتے ہوئے تعمیراتی صنعت میں ریفارمز متعارف کرائیں۔ صنعتوں کو گیس اور بجلی کے نرخوں میں بروقت چھوٹ مہیا کی جس کی وجہ سے بند صنعتوں نے اپنے تمام یونٹس چلانے شروع کر دیے جس کے نتیجے میں پاکستان کی ایکسپورٹس میں واضح بہتری نظر آئی ہے۔ گذشتہ برس جولائی سے نومبر تک پاکستان کی برآمدات12.1 بلین ڈالر کی رہیں یعنی چھ ماہ میں برآمدات میں ساڑھے پانچ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن دسمبر کے اعداد و شمار بہت حوصلہ افزاء ہیں۔ صرف دسمبر میں ہماری برآمدات 2.36 بلین ڈالر رہیں یعنی صرف دسمبر کی ایکسپورٹس میں 18.3فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ ان میں ٹیکسٹائل کا حصہ 7.44 بلین ڈالر کا ہے۔
صنعت اور تعمیراتی شعبے میں اصلاحات لانے کے بعد حکومت نے زراعت کو ترجیح بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر کسانوں کے مسائل حل کرنے اور ریفارمز لانے میں حکومت کامیاب ہو گئی تو جی ڈی پی کا بڑا حصہ ہاتھ میں آ جائے گااور بیشتر معاشی اہداف حاصل کیے جا سکیں گے۔ اگرچہ ابھی بہت کچھ ہونے کی ضرورت ہے لیکن چند اقدامات بھی اگر کاروباری طبقات کی حوصلہ افزائی کا باعث بننے لگیں تو غنیمت ہے۔
گذشتہ برس دنیا بھر کی معیشتوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔ صحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے، بے روزگاری بڑھ گئی ہے اور بڑی بڑی معیشتوں کی جی ڈی پی گر گئی ہے۔ ایسے میں پاکستان میں کورونا کا حملہ بھی زیادہ شدید نہ ہوا، کاروبار بھی چلتا رہا، تعمیراتی صنعت بھی چلنے لگی، باہر سے انویسٹمنٹ بھی آنے لگی ہے اور برآمدات بھی حیرت انگیز حد تک بڑھ رہی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے بڑے ممالک کے برعکس پاکستان میں سیاست کرتے ہوئے کورونا کے معیشت پر اثرات کو ذہن میں نہیں رکھا جاتا۔ دنیا کے تمام ممالک میں کورونا کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن مل کر حکمت عملی تیارکر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں حکومت پہ تنقید کرتے ہوئے کورونا کے اثرات کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتاہے۔ آخر کورونا نے دنیا بھر کی معیشتوں کو متاثر کیا ہے، کچھ تو اثر پاکستان پر بھی پڑا ہو گا۔ اس کے باوجود لاہور، قصور، فیصل آباد، سیالکوٹ، کراچی اور دیگر شہروں میں قائم انڈسٹریاں ماضی سے بہتر چل رہی ہیں اس لیے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔