کائونٹ ڈائون شروع ہو چکا ہے۔ اپوزیشن کے لیے واپسی کا راستہ نہیں بچا۔ اپنی عزت بچانے کے لیے اب انہیں ہر حال میں تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ہو گی۔ خبریں ہیں کہ اپوزیشن کا مسودہ تیار ہے، کسی بھی وقت اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی جا سکتی ہے۔ گویا کھیل دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
یہ تحریک عدم اعتماد بہت سے لوگوں اور جماعتوں کا ٹیسٹ ہوگا۔ مسلم لیگ ق کو اپنے سیاسی مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ اگر چودھری برادران نے تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو اس کے دو ہی مطالب ہوں گے۔ ایک، یا توانہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے اشارے کے بغیر از خود اپنے سیاسی مستقبل کے تعین کا فیصلہ کر لیا ہے یا پھر حکومتی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کی مزید حمایت حاصل نہیں رہی۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ چودھری برادران کے ذہن میں اگلے انتخابات کا خاکہ کیا ہو گا اور وہ اپوزیشن کی کس یقین دہانی پر تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑیں گے۔ کیا ن لیگ پی ٹی آئی کے طرح ان کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے پر تیار ہو جائے گی۔ عام تجزیہ یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی پچھلے انتخابات میں ق لیگ کے مقابلے میں اپنے امیدوار بٹھا کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ کرتی تو ق لیگ کوئی سیٹ نہ جیت پاتی۔ اگر ق لیگ گذشتہ انتخابات میں اسی فارمولے پر جیتی ہے تو مستقبل کا خاکہ ذہن میں رکھنا ان کے لیے بہت اہم ہے۔
یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ق لیگ اگلے ڈیڑھ سال کے لیے وزیر اعلی پنجاب بننے کی خاطراپوزیشن کا ساتھ دے گی کیونکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نئے انتخابات پر اتفاق کر چکے ہیں۔ اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ نے اگلی ٹرم کے لیے پرویز الٰہی سے وزارت اعلی کا وعدہ کر لیا ہو گا۔ اتنی بڑی جماعت ہو کر ن لیگ پنجاب کے سب سے بڑے عہدے کی قربانی نہیں دے سکتی۔ لہذا میرا نکتہ یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں ق لیگ اپوزیشن کا ساتھ دیتی دکھائی نہیں دیتی۔
جہاں تک ایم کیو ایم کی بات ہے تو ان کی نظریں مکمل طور پر مقتدرہ کی جانب رہیں گی۔ ایم کیو ایم کی پانچ سیٹیں ہوں، سات یا دس۔ وہ ہر صورت حکومت کا حصہ بننے کے لیے ہی الیکشن لڑتے ہیں۔ ایم کیوایم اپوزیشن کی پارٹی نہیں رہی انہیں ہر حال میں حکومت میں حصہ اور وزارتیں چاہئیں۔ لہٰذا انہیں جو حکم ملے گا، بجا لائیں گے بس اگلی ٹرم کے لیے ہلکی پھلکی یقین دہانی ضرور چاہیں گے۔
جہانگیر ترین نواز شریف سے کیا چاہیں گے۔ اگر انہیں اپوزیشن کا ساتھ دینا ہے تو لازمی بات ہے وہ اپنے گروپ کے چند افراد کے لیے ن لیگ سے ٹکٹ چاہیں گے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا تمام کے تمام افراد جہانگیر ترین کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تیار کھڑے ہیں، سعید اکبر نوانی بھی؟ جن لوگوں کے لیے جہانگیر ترین ٹکٹ کی یقین دہانی حاصل نہ کر پائے کیا وہ بھی اپوزیشن کا ساتھ دیں گے؟ اور جہانگیر ترین یہ سب کیوں کر رہے ہیں ظاہر ہے سیاست میں اپنے آپ کو ایک اہم ترین شخص کے طور پر ریلیوینٹ رکھنے کے لیے۔ اور اگر یہی یقین دہانی تحریک انصاف کی طرف سے کرا دی جائے تو تب بھی وہ اپوزیشن کا ساتھ دینا چاہیں گے؟
اس ساری صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد یہی بات سمجھ آتی ہے کہ اپوزیشن کا سارا انحصار انفرادی طور پر تحریک انصاف کی چند شخصیات پر ہے۔ آصف علی زرداری، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام نے پانچ پانچ چھ چھ افراد سے یقین دہانی حاصل کر رکھی ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی صورت میں ان کا ساتھ دیں گے۔ لیکن کیا ہو گا اگر اپوزیشن کے چند افراد نے بھی تحریک انصاف کو اس کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرا دی ہوئی تو؟
تحریک انصاف کے سیاسی ذہن رکھنے والے کچھ سینئررہنما افسردہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرنے میں ان کی جماعت ناکام رہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاملات یہاں تک پہنچنے ہی نہیں چاہیے تھے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کا پیش ہونا بھی ان کی ناکامی ہے، اپوزیشن کو اتنا طاقتور ہونے دینا ہی نہیں چاہیے تھاکہ وہ تحریک عدم اعتماد لائیں۔ گزشتہ روز پنجاب کی ایک اہم ترین سیاسی شخصیت سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنے مخصوص پنجابی لہجے میں کہا "سانہوں ایہہ پریشانی اے کہ ایناں دی ہمت وی کیویں ہوئی"۔
یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن ان کی اپنی سیاسی کمزوریوں کی وجہ سے مضبوط ہوئی۔ پچھلے چند دن میں ایک سوال سب سے اہم سوال بن کر ابھرا ہے اور وہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کہاں کھڑی ہے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کے ساتھ ہے یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب تو کسی کو معلوم نہیں البتہ صورتحال کا جائزہ لے کر ایک تجزیہ کرنے کی کوشش ضرور کی جا سکتی ہے اور سب اپنے اپنے طور پر یہ تجزیہ کر رہے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ عمران خان کو گھر بھیجنے سے وہ سب کیا ہو گا جو اس حکومت میں نہیں ہو پایا۔ عالمی مہنگائی کا توڑ کرنے کے لیے کیا کسی کے پاس جادو کی چھڑی موجود ہے؟ خود شاہد خاقان عباسی کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حالات میں پیٹرول سستا کرنا سمجھدارانہ فیصلہ نہیں تو کیا وہ آئیں گے اور پیٹرول سستا کر دیں گے؟ کیا نئی حکومت آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گی؟ کیا ان کی شرائط نہیں مانے گی؟ کیا میاں نواز شریف واپس لائے جائیں گے؟
کیا شہباز شریف حکومت بنائیں گے اور ان کے تمام کیسز ختم ہو جائیں گے؟ احتساب کے بیانیے کا کیا ہو گا؟ کیا احتساب کے نعرے پر دوبارہ کوئی یقین کرے گا؟ کیا بلاول وزیر اعظم بنیں گے جو پنجاب میں دس سیٹیں نہیں جیت سکتے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کو نکالنے کے بعد کیا ہو گا؟