کتابوں کی دکان پر جانا، شیلف سے کتابیں اٹھاکر ٹائٹل دیکھنا، پھر کتاب ہاتھ میں لے کر صفحات الٹ پلٹ کر دوبارہ شیلف میں رکھ دینا، ایک ایسی عادت ہے جو پڑھے بغیر بھی بہت سا علم حاصل کرنے کا باعث بنتی ہے۔ یعنی کتاب اگر پڑھ لی جائے تو کیا کہنے ورنہ بعض اوقات صرف ٹائٹل بھی نئے آڈیاز دماغ میں ابھارنے کا باعث بنتا ہے اور سوچ کے نئے در وا کر دیتا ہے۔
پچھلے دنوں میں ایک اسرائیلی مصنف نواہ حراری کی کتاب 21 Lessons of 21st Century خریدنے کے لیے گلبرگ لاہور میں واقع کتابوں کی ایک مشہور دکان پہ چلا گیا۔ مطلوبہ کتاب مانگنے پہ فورا مل گئی۔ اس کے بعد حسب عادت ونڈو شاپنگ کی غرض سے مختلف شیلفوں پر رکھی کتابیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگا۔ پھر دکان کے اس آخری حصے کا رخ کیا جہاں 50 فیصد، 80 فیصد یہاں تک کہ 90 فیصد رعایتی نرخوں پر کتابیں رکھی گئی تھیں۔ تبھی میگن ہائین کی کتاب Mind of A Survivor میری نظر سے گزری۔
میگن ہائین برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک کوہ پیما، صحرا نورد، ایڈوینچرر اور سروائیول کنسلٹنٹ ہیں۔ وہ 2013 سے 2016 کے دوران ڈسکوری چینل کے ایک مشہور کردار Bear Grylls کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔ وہ ٹی وی پریزینٹر ہونے کے علاوہ Bear Grylls کی سروائیول کنسلٹنٹ بھی رہ چکی ہیں۔ 36 سالہ میگن ہائین نے 2017 میں یہ کتاب لکھی جس کا عنوان تھا Mind of A Survivor۔
موضوع اچھوتا لگا۔ شیلف سے کتاب اٹھا کر پہلا ہی صفحہ کھول کر دیکھا تو لکھا تھا کہ "اگر آپ کسی بھی سروائیول کورس پر جائیں تو آپ کو سب سے پہلے "رُول آف تھری" یعنی تین کا اصول سکھایا جاتا ہے۔ ہوا کے بغیر تین منٹ، پانی کے بغیر تین دن اور کھانے کے بغیر تین ہفتے کیسے گزارے جائیں ـ" میگن ہائین لکھتی ہیں کہ میں اس میں ایک اور اضافہ کرتی ہوں اور وہ ہے سوچنے کے بغیر تین سیکنڈ۔ یعنی اگر آپ صرف تین سیکنڈز کے لیے سوچنا بند کر دیں اور ان تین سیکنڈز کے دوران کوئی غلط فیصلہ کر لیں تو جنگل یا پہاڑوں پر آپ کی موت کا اس سے جلدی کوئی چیز باعث نہیں بن سکتی۔ کتاب کے پہلے ہی پیرا گراف میں میگن ہائین نے سوچنے کے عمل اور اس بنیاد پر صحیح فیصلے کو انسان کی بقا کے لیے لازم و ملزوم قرار دیا۔
شروع کے صفحات میں ہی میگن ہائین نے یہ اصول بھی بیان کر دیا کہ زلزلہ، دھماکہ یا پھر ہوائی جہاز کی جنگل میں کریش لینڈنگ جیسے واقعات یوں اچانک رونما ہوتے ہیں کہ اکثر اوقات آپ کو صرف تین سیکنڈز میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ صحیح اور غلط فیصلہ زندگی اور موت کے فرق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ابتدائی صفحات میں ہی میگن ہائین نے لکھ دیا کہ میں نے اپنے تجربات سے یہ سیکھا ہے کہ جنگل میں انا کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ انہوں نے یہ اصول بھی بیان کر دیا کہ انسان کی ذہنی صحت اس کی جسمانی فٹنس سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ جنگل یا صحرا میں یہ احساس اجاگر ہونا عام سی بات ہے کہ میں گم ہو چکا ہوں، میں مشکل میں ہوں، میں زخمی ہوں اور مجھے مدد چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ اور یہ بھی ایک عام سے بات ہے کہ وہاں آپ کی مدد کے لیے کوئی موجود نہ ہوگا۔ ایسے میں اگرآپ اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ پائے تو آپ اپنی سب سے قیمتی چیز اپنے دماغ کو استعمال نہیں کر پائیں گے۔ لہذا مشکل حالات کو تسلیم کر کے صحیح فیصلہ کرنا ہی شکست سے بچا سکتا ہے۔
میگن ہائین نے زور دیا کہ کامیاب ہونے کے لیے تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے جانے کا بہت دخل ہے۔ انہوں نے ایک اصول بیان کیاImprovisem, adapt and overcome۔ یعنی اگر کوئی تباہی آپ پر اچانک نمو دار ہو گئی ہے جس کے لیے آپ پہلے سے تیار نہیں ہیں تو یقینا اُس وقت آپ کے پاس آپ کی مدد کے آلات موجود نہیں ہوں گے۔ آپ کے پاس آپ کی ٹول کٹ موجود نہیں ہو گی۔ آپ کے پاس تین چیزیں ہو ں گی، وہ کپڑے جو آپ نے پہن رکھے ہیں، وہ ماحول جو آپ کے ارد گرد موجود ہے اور وہ دماغ جو اس وقت آپ کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ لہذا موجودہ حالات میں اپنے دماغ کو بروئے کار لا کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے ہی سروائیو کرنے کا راستہ نکالنا ہو گا۔
میگن ہائین کی یہ کتاب جنگل یا صحرا میں سروائیول کے پس منظر میں لکھی گئی ایک ایسی تحریرہے جسے ہم زندگی میں بے شمار مقامات پر اپنی راہنمائی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ زندگی میں کئی بار ہمیں ایسے دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب ہر چیز تباہ ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بعض اوقات ہمارا کاروبار تباہ ہو رہا ہوتا ہے۔ بعض اوقات نوکری چلے جانے کے بعد بے روزگار ی کا سامنا کرناپڑ رہا ہوتا ہے، بعض اوقات گھر کے سربراہ کے چلے جانے کے بعد کسی خاتون کو تن تنہا بچوں کے ساتھ سروائیو کرنے کا فن سیکھنا ہوتا ہے۔ حفیظ سینٹر میں آن کی آن میں کروڑوں کے کاروبار تباہ ہو گئے، میگن ہائین کی کتاب کی روشنی میں اپنے دماغ اور تجربے کا استعمال کر کے سروائیول کا راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔ میگن ہائن نے یہ بھی سکھایا کہ سروائیول اور انا پرستی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ بس ایک چیز کو یقینی بنانا ہو گا کہ کسی بھی مصیبت کے پڑنے کے بعد تین سیکنڈز کے لیے بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ فیصلہ سازی کی قوت تین سیکنڈز کے لیے بھی معطل نہیں ہونی چاہیے۔ سروائیول دوبارہ عروج حاصل کرنے کی ابتداء ہوتی ہے۔ لہذا مشکل وقت میں تین سیکنڈز بہت اہمیت کے حامل ہیں، وہ تین سیکنڈز جس میں غلط فیصلہ کرنے کا اندیشہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔