اگر یہ فیصلہ فرد کے ہاتھ میں دے دیا جائے کہ وہ چاہے تو پاکستان کے تفتیشی اداروں کے سامنے پیش ہو اور چاہے تو عدم اعتماد کا بہانہ بنا کر پیش ہونے سے انکار کر دے، تو ایسے میں ریاست کا نظام نہیں چلایا جا سکتا۔ مولانا فضل الرحمن کی دلیل یہی ہے، یہی کہہ کر نواز شریف، اسحق ڈار اوران کے خاندان کے باقی افراد پاکستان نہیں آتے، کہتے ہیں انہیں ان عدالتوں پر اعتماد نہیں۔ فضل الرحمن بھی فرماتے ہیں کہ وہ نیب کے سامنے پیش نہیں ہوں گے کیونکہ نیب احتساب کا غیر جانبدار ادارہ نہیں ہے۔ اب اگر یہی کہہ کر ایک عام آدمی پولیس میں پیش نہ ہو، عدالت سے غیر حاضر رہے، نیب میں نہ جائے تو کیا کسی ملک کا نظام چل سکتا ہے؟ وہ رعایت مولانا فضل الرحمن کیسے لے رہے ہیں جو ایک عام آدمی کو نہیں مل سکتی؟
نیب نے مولانا فضل الرحمن کے فرنٹ مینوں کا ایک نیٹ ورک پکڑا ہے۔ جو "لیئرنگ" (Layering)کے اصول پر کام کر رہا تھا۔ لیئرنگ کی اصطلاح سپریم کورٹ کے حکم پرتحقیقات کے بعد لکھی گئی جعلی اکائونٹس کی جے آئی ٹی رپورٹ میں سامنے آئی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح ملزموں نے منی ٹریل کو کنفیوژ کرنے کے لیے پیسے ایک اکائونٹ سے نکال کر دوسرے اکائونٹ میں منتقل کیے، دوسرے سے تیسرے میں اور پھر وہ رقم کئی اکائونٹس میں گھومنے کے بعد نکال کر مختلف طریقوں سے ملک سے باہر بھجوا دی گئی یا پھر یہیں استعمال کر لی گئی۔ لیئرنگ اس لیے کی جاتی ہے تا کہ منی لانڈرنگ اور کرپشن پکڑنے والے اداروں کو کنفیوژ کیا جا سکے۔
نیب کی تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے لیئرنگ کا یہی طریقہ پراپرٹیز کے لیے استعمال کیا۔ اگر مراد سعید نیب تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے صحیح کہہ رہے ہیں تو دلچسپ بات یہ کہ مولانا کے فرنٹ مینوں نے آگے اپنے فرنٹ مین رکھے ہوئے تھے۔ مولانا کے سگے ماموں عبدالروف عرف ماما مولانا کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتے ہیں جبکہ روف ماما کا اپنا ایک نیٹ ورک تھا۔ مثال کے طور پر ایک فرنٹ مین ڈرائیور عبداللہ ہے جس کی شور کوٹ میں 81 کنال اور ڈی آئی خان میں 1000کنال زمین ہے اور یہ زمین اس نے روف ماما کے دوسرے ملازم نواز مسعود سے خریدی۔ ممکن ہے نواز مسعود نے بھی یہ زمین لیئرنگ کی غرض سے مولانا ہی کے ایک اور ملازم سے خریدی ہو۔ خود روف ماما کے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ 2002 سے پہلے یہ ایک بے حیثیت شخص تھا اور پھر خیبر پختونخواہ میں ایم ایم اے کی حکومت بن گئی۔ نیب کے مطابق اربوں روپے کی ہزاروں ایکڑ زمین، درجنوں بنگلے، مدارس، فلیٹس اور دکانیں مولانا کے بیسیوں فرنٹ مینوں کے نام پر موجود ہیں۔
اب مولانا ضد پر اڑے ہیں کہ وہ ان سوالوں کے جواب نہیں دیں گے، خود جائیں گے نہ ان کے مبینہ فرنٹ مین۔ جلسے کریں گے، احتجاج کریں گے، یہاں تک کہ راولپنڈی دھرنا دینے چلے جائیں گے مگر نیب نہیں جائیں گے، کسی سوال کا جواب نہیں دیں گے۔ وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو مدارس کے طلبہ کو طاقت بنا کر سڑکوں پہ نکال دیں گے، افرا تفری پیدا کریں گے، ملک کو بے چینی کی طرف لے جائیں گے مگر ان سے پوچھے گئے سوالوں کا جواب نہیں دیں گے۔ کیا ریاستیں ایسے چلتی ہیں؟ اگر مان بھی لیا جائے کہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف سامنے آنے والا مبینہ فرنٹ مینوں کا نیٹ ورک محض کہانی اور افسانہ ہے تو بھی انہیں اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کرنا چاہیے، لیکن اس موضوع پر ان کی خاموشی شبہات کو جنم دے رہی ہے۔
اگر مولانا کے خلاف نیب کی یہ تمام تحقیقات درست ہیں تو ساری سیاسی کہانی آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے۔ پی ڈی ایم میں مولانا کے متحرک کردار کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت کو گھر بھیجنے، بساط کو لپیٹنے اور اسمبلیوں سے استعفے دینے کے معاملے میں مولانا کا اس درجہ اصرار کیوں ہے۔ شاید انہیں اپنے خلاف لگنے والے الزامات کی سنجیدگی کا اندازہ ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ یہ الزامات شریف خاندان اور آصف زرداری پر لگنے والے الزامات سے کم سنجیدہ نہیں۔ اگر انہیں جیل جانا پڑا تو مال بھی پکڑا جائے گا اور مذہبی ساکھ بھی خاک میں مل جائے گی۔ انہیں محض یہ شکوہ نہیں کہ وہ سیاسی شطرنج کے کھیل میں بساط کا حصہ نہیں، انہیں ڈر ہے کہ وہ آئندہ بھی اس کا حصہ نہ ہوں گے۔ انہیں خوف ہے کہ کہیں ان کا کھیل ختم تو نہیں ہو گیا ہے، کہیں انہیں سیاست سے جبری طور پر ریٹائر تو نہیں کر دیا گیا ہے۔ انہی خوف ہے کہ جن کی حکومتوں میں بیٹھ کر وہ کشمیر کمیٹیوں کی مراعات کے مزے لوٹتے تھے وہ اب دوبارہ آئیں گے یا نہیں۔ کوئی پوچھے تو سہی کہ 1975 سے لے کراب تک موصوف کی ملک کے لیے کیا سیاسی خدمات رہی ہیں؟ انہوں نے سیاست میں پاکستان کی بھلائی کے لیے کیا ہی کیا ہے؟ کوئی ان کے ذرائع آمدن پوچھ لے تو پاکستان کا وجود اور اسلام دونوں خطرے میں پڑ جائیں گے۔
حیرت ہے مولانا کی جانب سے نیب کے ساتھ عدم تعاون کے باوجود اب تک ان کے وارنٹ گرفتاری کیوں جاری نہیں ہو رہے۔ روف ماما، ڈرائیور عبداللہ، فرنٹ مین ملازم دین محمد، فرنٹ مین عبداللہ گل وزیر، گل ظریف دینِ اسلام، نیک بادشاہ، اشفاق احمد اور اس کا خالہ زاد بھائی آصف، گن مین قاری اشرف، دلاور وزیر، حاجی عبدالصمد، فرنٹ مین رضوان اور گل مینگل وغیرہ کو تو گرفتار کیا ہی جا سکتا ہے۔ کیا نیب کو ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے مولانا اپنی مدرسہ فورس کے ذریعے فساد پھیلائیں گے؟ تو کیا فساد کے ڈر سے احتساب کے عمل کو روکا جا سکتا ہے؟ محض مراد سعید اور علی امین گنڈا پور کے ذریعے سے پریس کانفرنسز کا ہونا کافی نہیں۔ تمام ثبوتوں کے ساتھ مولانا کو احتساب کی عدالت میں لانا ضروری ہے تا کہ لیئرنگ بے نقاب ہو اور ہزاروں ایکڑ اراضی کے اصل مالک کا پتہ چل سکے۔