اس سوال کا جواب چودھری شجاعت کی کتاب میں دستیاب ہے، متعدد بار انہوں نے شریف برادران کی وعدہ خلافی کا ذکربڑے دکھی دل کے ساتھ کیا ہے۔ بلکہ " نواز شریف کی مسلسل عہد شکنی" کے عنوان سے انہوں نے اپنی کتاب میں ایک الگ باب تحریر کیا ہے۔ جب ٹی وی پر میں نے یہ خبر دیکھی کہ شہباز شریف نے مشترکہ دوستوں کے ذریعے پرویز الٰہی کو پنجاب میں وزارت اعلی کی پیشکش کی ہے تو فورا چودھری شجاعت کی کتاب کا یہ پیراگراف میرے ذہن میں تازہ ہو گیاجو انہوں نے 1997 کے انتخابات کے حوالے سے تحریر کیا ہے، صفحہ نمبر 145 پر وہ لکھتے ہیں :
"میاں محمد شریف کی ہمارے گھر تشریف آوری: جیسے ہی عام انتخابات کا اعلان ہوا، نواز شریف کے والد میاں محمد شریف بنفس نفیس گلبرگ ہمارے گھر تشریف لائے۔ کہنے لگے، میں آپ کی والدہ سے بھی بات کرنا چاہتا ہوں ۔ ہم ان کو اپنی والدہ کے پاس لے گئے۔ میاں محمد شریف نے میری والدہ سے کہا کہ میں اور میرا خاندان آپ کے انتہائی احسان مند ہیں۔ آپ لوگوں نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا ہے، حتیٰ کہ ہمارے لیے جیل بھی کاٹی۔ اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس بار الیکشن میں کامیابی کے بعد اگر نواز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں تو پرویز الٰہی ہی پنجاب میں وزیر اعلی ہوں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک بھائی کے ہوتے ہوئے دوسرا بھائی وزیر اعلی بن جائے۔ انشاء اللہ اس بار آپ کے بچوں کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھے گا اور دونوں خاندان ایک خاندان کی طرح مل کر اکٹھے چلیں گے۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ لیکن الیکشن میں مسلم لیگ نون بھاری اکثریت سے جیت گئی تو پہلے کی طرح اس بار بھی وعدہ خلافی کی گئی۔ نواز شریف وزیراعظم اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ "
اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 168 پر چودھری شجاعت شہباز شریف کے ایک اور جھوٹ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:"غوث علی شاہ انتظار کرتے رہ گئے: 12 اکتوبر 1999 کے بعد غوث علی شاہ بھی نواز شریف اور شہباز شریف کے ہمراہ لانڈھی جیل میں تھے۔ جس روز نواز شریف اور شہباز شریف اپنے خاندان سمیت جدہ جا رہے تھے اور ان کے لیے جہاز تیار کھڑا تھا، غوث علی شاہ نے شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ شہباز شریف نے جواب دیا کہ وہ کسی سے ملنے جا رہے ہیں، ایک دو گھنٹے تک واپس آ جائیں گے۔ کچھ دیر بعد غوث علی شاہ نے ٹی وی پر دیکھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف، ان کا خاندان اور ان کے ملازم چکلالہ ائیر پورٹ سے جدہ کے لیے روانہ ہو گئے ہیں ۔ یہ واقعہ غوث علی شاہ نے خود مشاہد حسین سید کو سنایا تھا۔ غوث علی شاہ نے مشاہد حسین سید سے کہا شاہ صاحب، اس جہاز میں ہمارے لیے ایک سیٹ بھی نہیں تھی۔ "
چودھری شجاعت نے شریف خاندان کی چالاکیوں کے بارے میں اپنی کتاب میں کئی واقعات قلمبند کیے ہیں ان میں سے ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے:"جنرل پرویز مشرف کو میاں محمد شریف کی دعوت: ایک مرتبہ میں نے جنرل پرویز مشرف سے پوچھا، آپ کو نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا، آپ کی بیگم بھی آپ کے ہمراہ تھیں اور کھانے کے بعد میاں شریف نے آپ سے کہا تھا کہ آپ میرے چوتھے بیٹے ہیں؟
جنرل مشرف نے ہنستے ہوئے کہا، ہاں !ایسے ہی ہوا تھا۔ میں نے کہا، اس روز آپ کی ملاقات کے بعد جب میں اور پرویز الٰہی میاں شریف صاحب سے ملنے کے لیے گئے تو آپ کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ہم سے کہا کہ میں نے وزیر اعظم نواز شریف سے کہاہے کہ جنرل مشرف کو فورا فارغ کر دو، میں نے اس کی آنکھیں دیکھی ہیں، بڑی خطرناک آنکھیں ہیں۔"
میں حیران ہوں اب کس اعتماد کے ساتھ شہبازشریف نے چودھری برادران کو سیاسی طور پر ساتھ چلنے اور پنجاب میں بڑا عہدہ عطا کرنے کی پیشکش کی۔ کاش شہباز شریف نے چودھری شجاعت کی لکھی ہوئی کتاب " سچ تو یہ ہے " ایک بار پڑھ لی ہوتی تو انہیں اندازہ ہوتا کہ اب چودھری برادران ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔
چودھری شجاعت نے یہ بھی لکھا ہے کہ "وزیر اعظم نواز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب سے کہا تھا کوئی ایسا طریقہ نکالیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو پارلیمنٹ کی کسی استحقاق کمیٹی میں بلوا کر ان کی سرزنش کرائی جائے۔ گوہر ایوب نے کہا پارلیمانی قواعد و ضوابط کے تحت کسی کمیٹی کو چیف جسٹس کے خلاف اتنا بڑا قدم اٹھانے کا اختیار نہیں بلکہ خطرہ ہے کہ اس کا سخت رد عمل ہو گا۔ گوہر ایوب کے بقول اس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ان کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا۔ وہ ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئے تو راستے میں نواز شریف نے ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر کہا، کوئی ایسا راستہ نکالیں کہ چیف جسٹس کو کم از کم ایک رات کے لیے ہی جیل بھیج دیا جائے۔ گوہر ایوب نے کہا، خدارا ایسی باتیں نہ کریں کہ پورا نظام ہی زمیں بوس ہو جائے مگر نواز شریف نے گوہر ایوب کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرا اور سپریم کورٹ پر حملہ کر کے رہے۔ "
چودھری شجاعت نے اپنی کتاب میں کارگل کے معاملے پر بھی نواز شریف کے دعووں کو جھوٹ قرار دیا اور کہا انہوں نے ان کی موجودگی میں ایک میٹنگ میں کہا تھا آئیے سب مل کر کارگل آپریشن کی کامیابی کے لیے دعا کریں اور بعد میں مکر گئے۔ چودھری شجاعت نے لکھا کہ ان کی رائے سے اختلاف کے باعث نواز شریف نے امریکہ جاتے ہوئے سب سے ہاتھ ملایا لیکن ان سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کیا۔
حیرت ہے آج سیاسی ضرورتوں نے شہباز شریف کو چودھری شجاعت سے ہاتھ ملانے پر مجبور کر دیا ہے۔ لیکن لگتا ہے چودھری شجاعت بڑھاپے اور بیماری کے باوجود ماضی کے ان واقعات کو نہیں بھولے اور انہیں اپنی کتاب میں لکھا ایک ایک حرف یاد ہے۔