مینار پاکستان پر جمع ہونے والے جن چار سو لڑکوں کو ہم حیوان کہہ کر پکار رہے ہیں ان میں سے شاید ایک بھی پیشہ ور مجرم نہیں ہو گا، وہ سب کے سب عام گھروں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں گے لیکن تربیت کے فقدان نے انہیں غیر ارادی طور پر مجرم بنا دیا۔
والدین کے پاس وقت ہی نہیں بچا کہ اپنے بچوں کو بنیادی معاشرتی قدروں سے روشناس کرائیں۔ انہیں فرصت ہی نہیں کہ بچوں کو زندگی کے بنیادی آداب سکھائیں۔ انہیں اتنی بھی فرصت نہیں کہ کچھ دیر بچوں کے ساتھ مل بیٹھیں اور حساس موضوعات پربات چیت کریں۔ دوسروں کا احترام، بڑوں کی عزت جیسے موضوعات والدین کی گفتگو کا حصہ نہیں رہے۔ ان کے والدین نے انہیں کبھی بٹھا کر یہ جملہ نہیں کہا ہو گا کہ بیٹا گھر سے باہر نکلو تو دوسروں کی بہنوں کو اسی احترام کے قابل سمجھنا جیسے تم اپنی بہن کے لیے توقع رکھتے ہو۔ ان کے والدین نے کبھی ان کی شخصیت سازی کے لیے کوئی حکمت عملی نہ بنائی ہو گی۔ ان کے نزدیک شاید یہ کوئی موضوع ہی نہیں ہو گا۔ ہر والدین کی خواہش ہو تی ہے کہ ان کی بیٹی درندوں سے محفوظ رہے لیکن انہیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ دوسرے کی بیٹیوں کے لیے درندے وہ اپنے گھروں میں ہی پال رہے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ادارے فیکٹریاں بن گئے ہیں۔ گریڈز کی دوڑ لگی ہے، تربیت ترجیح نہیں رہی۔ اسکولوں میں بزم ادب کے نام سے ہونے والی ہفتہ وار تقریبات وقت کا ضیاع سمجھی جاتی ہیں۔ تقریری مقابلوں کے عنوانات اب اقبال کے مصروں پر نہیں بلکہ اوچھے مزاحیہ جملوں پر رکھے جاتے ہیں، طلبہ و طالبات کے اخلاق سے گرے جملوں پر اساتذہ منہ دبا دبا کے ہنستے ہیں مگر برا نہیں مانتے۔ نتیجے میں اخلاق اور تہذیب سے عاری نسل تیار ہو کر معاشرے کا حصہ بن رہی ہے۔ ایسے میں حیران ہونے کی کیا ضرورت ہے۔
فلم، ڈرامے اور اسٹیج کے سکرپٹ سے سبق نامی تصور ختم ہو گیا ہے۔ ذومعنی جملے مزاح بن گئے ہیں، قابل احترام رشتوں کے غیر اخلاقی تعلقات کو معاشرے میں قابل قبول بنا دیا گیا ہے ایسے تعلقات کو دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی جیسے یہ اب معمول کی بات ہو۔ لکھنے والے لچر پن لکھتے چلے جا رہے ہیں اور دیکھنے والے دیکھتے چلے جا رہے ہیں۔ ذہن سازی یونہی ہو رہی ہے۔ جس معاشرے کے ادیب تک خیانت پر اتر آئیں وہاں ایسی ہی نسل تیار ہوتی ہے جیسی چودہ اگست کو مینار پاکستان پر جمع ہوئی۔
نور مقدم قتل کیس کو دیکھیں، ظاہر جعفر کے والدین کا کردار نہایت افسوسناک ہے۔ نور مقدم کے اپنے والدین بھی اگرچہ بری الزمہ نہیں مگر ظاہر جعفر کے والدین کی غفلت تو مجرمانہ ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی اقدار جس سوسائٹی سے دبے پائوں عنقا ہو جائیں وہاں ایسے جرائم بھی دبے پائوں ہی چلے آتے ہیں۔ اب تک کے معلوم حقائق کے مطابق واضح ہے کہ ظاہر جعفر کے والدین نے اپنے بیٹے کو اخلاقی پستی سے نکالنے کی کوشش نہ کی تھی بلکہ وہ اس کی اخلاق باختگی کو ایسا برا نہ سمجھتے تھے۔ اب نتیجے سے حیران ہونا انہیں زیب دیتا ہے کیا؟
مینار پاکستان پر لڑکی سے حیوانیت کا واقعہ ہو، نورمقدم کا لرزہ خیز قتل ہو، سیالکوٹ موٹروے پر دو بچوں کی ماں سے زیادتی کی ہولناک داستان ہو یا پھر قصور کی زینب کااندوہناک واقعہ۔ آپ اس جیسے سیکڑوں دیگر واقعات کو اٹھائیں اور ایک ایک کر کے مجرموں کے بیک گرائونڈ کی کھوج لگائیں آپ کو ننانوے فیصد میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی اور وہ ہے والدین کی جانب سے تربیت کا فقدان۔
ذمہ دار والدین بچوں کو اپنے ساتھ واک پہ لے جاتے ہیں، راستے میں نظر آنے والی چیزوں کو مشاہدے میں لا کر بچوں سے سوال کرتے ہیں، پھر انہیں نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کہتے ہیں، یوں اکثر اوقات نصیحت کے بغیر ہی بچوں کی تربیت ہو جاتی ہے۔ راستے میں فقیر پیچھے پڑ جائے تو بتاتے ہیں کہ کمزور کو جھاڑ نہیں پلاتے۔ صلہ رحمی کرتے ہیں۔ بزرگوں اور خواتین کے لیے سیٹ چھورتے ہیں، انہیں راستہ دیتے ہیں اور نہایت احترام سے انہیں مخاطب کرتے ہیں۔۔ انہیں بلی اور کتے کو پتھرمارنے سے منع کرتے ہیں۔ کیسے ممکن ہے آپ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں انہیں اپنے ساتھ باہر لے جائیں، اپنے عمل سے ان کے لیے رول ماڈل بنیں، انہیں اخلاقی اقدار کے ساتھ پروان چڑھائیں اور پھر بھی بچے بڑے ہو کر مینار پاکستان پر ایک لڑکی کے کپڑے نوچ لیں۔ والدین سمجھتے ہیں کہ وہ دن بھر محنت کر کے بچوں کے لیے پیسے کما کر لاتے ہیں انہیں کھانے کو دیتے اور سکول کی فیسیں ادا کرتے ہیں گویا وہ اپنی ذمہ داری ادا کررہے ہیں، ایسے والدین سراسر غلطی پر ہیں۔
ہمارے ہاں ایک طبقہ ایسا ہے جوکہتا ہے کہ عائشہ نامی ٹک ٹاکر چودہ اگست کو مینار پاکستان پر گئی ہی کیوں تھی، یا دو بچوں کی ماں اکیلے رات کو موٹروے پر سفر ہی کیوں کر رہی تھی یا زینب کے والدین نے بچی کو اکیلے بھیجا ہی کیوں تھا۔ دراصل یہی دلائل معاشرے کے تباہ ہو جانے کا اعتراف بھی ہیں۔ اگر سوسائٹی میں اخلاقی اقدار موجود ہوتیں تو چودہ اگست کو مینار پاکستان جانے والی اکیلی لڑکی بھی ہزاروں لڑکوں میں خود کو محفوظ تصور کرتی، دو بچوں کی ماں موٹروے پر نکلتے ہوئے خوف کا شکار نہ ہوتی اور والدین اپنے بچوں کو گلی کی نکڑ تک بھیجنے میں خوف محسوس نہ کرتے۔ یہ خوف ہی اس بات کی دلیل ہے کہ سوسائٹی کچرے کا ڈھیر بن گئی ہے۔ ایسے میں لازم ہے کہ کچرے سے دامن بچانے کے لیے از خود احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں جب تک کہ سوسائٹی کا کچرا صاف نہ ہو جائے۔ فی زمانہ خوف کا شکار ہو جانا ہی بہتر ہے۔ شاید خوف کا شکار ہو جانا حفاظت کی ضمانت ہے، یہ اس معاشرے کا افسوسناک پہلو ہے مگر یہی تلخ حقیقت ہے۔