مختلف شعبوں میں حکومت کی کمزور کارکردگی کی وجہ سے اس وقت ملک کو ایک اچھی، تگڑی اور شفاف اپوزیشن کی ضرورت تھی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کو صرف اپنی پڑی ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کو بھی صرف اپوزیشن ہی کی پڑی ہے۔
ن لیگ کا بیانیہ دھڑام سے زمین پر آ گرا ہے۔ قائدین اور کارکنوں میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔ وہ جو کہتے تھے نواز شریف بدل چکے ہیں اب کسی سے ڈیل نہیں کریں گے، ان پر منکشف ہوا ہے کہ نواز شریف اب بھی ویسے ہی ہیں، ڈیل کی تلاش میں سرگرداں اور اپنے نمائندوں کے ذریعے چھپ چھپ کر ملاقاتیں کرنے والے۔ حقیقت اس قدر واضح ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز میں ڈیل کی کوششوں کی تردیدکرنے کی جرات نہ ہوئی، نواز شریف نے محض اتنا کہا کہ آئندہ عسکری شخصیات سے انفرادی یا اجتماعی سطح پر ملاقاتیں نہ ہوں گی، ابھی کیوں ہوئی اس کی وضاحت کرنے کی پوزیشن میں وہ نہیں تھے۔ مریم بی بی جو فرما رہی تھیں کہ ان کے چچا سمیت پارلیمنٹیرینز کا بریفنگ لینے کے لیے عسکری قیادت کے پاس جانا مناسب نہیں تھا، اب محمد زبیر صاحب کی آرمی چیف کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کی خبر سامنے آنے کے بعد سے وہ بھی خاموش ہیں۔
اپنے تئیں نواز شریف نے اتوار کو ہونے والی ملٹی پارٹیز کانفرنس میں مقتدر حلقوں کے بارے میں سخت زبان کا استعمال کر کے خود کو جمہوری قدروں کا سب سے بڑا علمبردار ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی۔ دو ہی دن میں معلوم ہوا کہ نظریہ وظریہ کچھ نہیں تھا، یہ سب ڈیل کی کوششوں میں ناکامی کا چڑچڑا پن تھا، جو غصہ بن کر زبان پر آ گیا۔ لیکن ڈی جی آئی ایس پی آر کے انکشاف کے بعد صرف ن لیگ کو ہی دھچکہ نہیں لگا، پوری کی پوری آل پارٹیز کانفرنس بے اثر ہو کے رہ گئی ہے۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ تحلیل ہو کر زمین برد ہو گیا ہے۔ ٹاک شوز میں لیگی قائدین کے لیے اپنی قیادت کا دفاع مشکل ہو گیا ہے اور وہ نواز شریف اور مریم نواز جو فرنٹ فٹ پر آ کر نئی سیاسی تحریک کے لیے خود کو پیش کرنے والے تھے، بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔
نواز شریف نے خود کے لیے ایک ایسا طعنہ خرید کیا ہے جو ہمیشہ ان کا پیچھا کرتا رہے گا، جیسے پرویز مشرف سے ڈیل، سپریم کورٹ پر حملہ، میمو گیٹ میں پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف وکالت جیسے طعنے آج تک ان کا پیچھا کرتے چلے آ رہے ہیں۔
نواز شریف نے ڈیل کی کوششوں میں ناکامی کے بعد ایک غیر دانشمندانہ تقریر کر کے صرف خود کو ہی نہیں، اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ اپنی اس تقریر کے لیے نواز شریف نے پیپلز پارٹی کی جانب سے منعقعد کی گئی آل پارٹیز کانفرنس کا فورم استعمال کیا۔ اب پیپلز پارٹی کے پاس بغلیں جھانکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا، انہیں نہیں معلوم کہ وہ اب نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوں یا ان کے خلاف۔ بلاول اور آصف زرداری کواب احساس ہوا ہو گا کہ نواز شریف کی جدو جہد جمہوریت کے استحکام اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے لئے نہیں تھی بلکہ وہ تو اس قسم کی تقریر ان قوتوں پر دبائو بڑھانے کے لیے کر رہے تھے جنہیں وہ اپنا حریف سمجھتے ہیں۔
محمد زبیر نے صورتحال کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی، موقف اختیار کیا کہ ان کی ملاقات چالیس سال پہلے کے تعلق کی بنیاد پر تھی۔ کچھ باتوں کا جواب دینے سے مگر وہ قاصر رہے۔ وہ نہیں بتا پائے کہ اگر دوستانہ یا خیرسگالی کی ملاقات تھی تو دس دن کے اندر دوسری ملاقات کیوں ہوئی؟ کیا کچھ ایسی باتیں تھیں، جس کا جواب دینے کے لیے انہیں اپنی قیادت سے پوچھنا ضروری تھا اور اگلی ملاقات میں وہ ان باتوں کا جواب لے کر گئے۔ محمد زبیر یہ بھی نہیں بتا پائے کہ انہیں کس سوال کے جواب میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کا راستہ دکھایا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا کہ محمد زبیر کی دو ملاقاتیں نواز شریف اور مریم نواز کے لیے تھیں۔ محمد زبیر اس واضح موقف کو دو ٹوک انداز میں رد کیوں نہ کر پائے۔ یوں ان ملاقاتوں کے بہت سے ایسے پہلو ہیں جو محمد زبیر اور نواز شریف کے موقف کو کمزور بناتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اس کھیل کے ایک اور لوزر ( Looser) ہیں۔ وہ جو خود کو ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے قائدین سے بڑا قائد بنا کر پیش کر رہے تھے، شیخ رشید کی بریکنگ نیوز کے بعد وہ بھی بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔ وہ مسلسل تاثر دے رہے تھے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ان کا ساتھ نہیں دے رہے ورنہ وہ تو کب کے حکومت گرا چکے ہوتے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ دونوں بڑی جماعتیں حکومت کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔ شیخ رشید کے انکشافات کے بعد سامنے آیا ہے کہ وہ اُن کے بھی ساتھ ہیں اور اِن کے بھی خلاف نہیں۔
اس ساری صورتحال کے بعد یہ تو واضح ہے کہ اپوزیشن کے پاس اب حکومت کے خلاف بڑی تحریک چلانے کی اخلاقی جرات نہیں بچی۔ جب بھی حکومت کے خلاف نعرہ لگے گا، لوگ سمجھیں گے اپنا ریٹ بڑھا رہے ہیں، این آر او حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لوگ سمجھیں گے کہ کیسز کا خاتمہ ان کا مقصد ہے اور اس سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
اس وقت مختلف شعبوں میں حکومت کی کمزور کارکردگی کی وجہ سے ملک کو ایک اچھی، تگڑی اور شفاف اپوزیشن کی ضرورت تھی جو حکومت پر جائز دبائو بڑھا کر اسے گڈ گورننس پر مجبور کرتی، ادویات کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے حکومت پر زور دیتی، پولیس ریفارمز لانے اور اداروں کو ٹھیک کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کو صرف اپنی پڑی ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کو بھی اپوزیشن ہی کی پڑی ہے۔