Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. PDM Ki Hikmat e Amli Mein Mojood Khamiyan

PDM Ki Hikmat e Amli Mein Mojood Khamiyan

اگرچہ پی ڈی ایم نے تین ایسے جلسے کیے ہیں جنہیں حاضرین کی تعداد کے اعتبار سے کامیاب کہا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی حکمت عملی میں کئی ایسے نقائص موجود ہیں جس کی وجہ سے اس کے کامیاب ہونے کے امکانات تقریبا صفر ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ پی ڈی ایم میں شامل کئی جماعتیں اور سیاسی شخصیات اپنے سیاسی مستقبل پر منفی اثرات مرتب کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔

پی ڈی ایم کی حکمت عملی میں موجود پہلی کمزوری یہ ہے کہ اس میں شامل سیاسی جماعتوں کے موقف میں ہم آہنگی کاشدید فقدان ہے جو قائدین کی تقریروں میں بھی واضح نظر آتاہے۔ نواز شریف اور مریم نوازاپنے کیسز کے خاتمے کی جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں تو فضل الرحمن کو محض اسمبلی میں موجود نہ ہونے کا غصہ ہے جبکہ بلاول صرف حکومت کی خراب کارکردگی پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں اور ہمیشہ ایک ایسی تقریر کرتے ہیں جو کسی بھی دور میں کسی بھی حکومت کے خلاف کی جائے تو اس سے کسی کو کوئی فرق نہ پڑے، یعنی وہ ہر تقریر میں اپنی حکومت کی ماضی کی کارکردگی بتانے پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں جس سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیا آپ نے غور کیا کہ بلاول اپنی تقریر کے دوران نہ تو عمران خان سے استعفی کا مطالبہ کرتے ہیں نہ انہیں کوئی الٹی میٹم دیتے ہیں نہ ہی جلدحکومت کے ختم ہو جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر کبھی ایک آدھ بار کہیں ذکر ہوا بھی ہے تو نہایت غیر محسوس اور سرسری سا جس سے کسی کو کوئی فرق نہ پڑے۔

پیپلز پارٹی کی حکمت عملی میں ایک اور بات قابل غور ہے اور وہ یہ کہ آصف زرداری نے پی ڈی ایم کے تین جلسوں میں سے کسی ایک میں بھی تقریر نہیں کی جس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاپیپلز پارٹی دانستہ طور پر پی ڈی ایم کے جلسوں کو زیادہ طاقتور بنانا نہیں چاہتی؟ پیپلز پارٹی کھیل کا حصہ رہنا چاہتی ہے، کھیل بگاڑنا نہیں چاہتی۔ وہ نہیں چاہتی کہ سیاست اس نہج پر پہنچ جائے جہاں وہ کھیل کا حصہ نہ رہے۔ وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ دوبارہ الیکشن ہوں کیونکہ وہ جانتی ہے جو کچھ آج ان کے پاس ہے انہیں اس سے زیادہ نہیں ملے گا۔

پی ڈی ایم کی حکمت عملی میں دوسری کمزوری یہ ہے کہ اس کا ایجنڈا غیر واضح ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں کسی ایک ایجنڈے پر متفق نہیں۔ مثلا ن لیگ ـ"ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ لگا کر میدان میں ہے تو پیپلز پارٹی کا یہ مسئلہ نہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پیپلز پارٹی اس اتحاد میں کیوں ہے۔ حالانکہ پیپلز پارٹی کے ساتھ تو پنجاب میں دھاندلی ہوئی ہے نہ کسی اور صوبے میں ان کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے۔ وہ عمران خان کو گھربھی نہیں بھیجنا چاہتے، وہ دوبارہ الیکشن بھی نہیں چاہتے، پھر وہ چاہتے کیا ہیں۔ ان کا ایجنڈا واضح ہے، موجودہ حالات میں وہ صرف اپوزیشن دِکھنا چاہتے ہیں تا کہ جب اپوزیشن کی باقی جماعتیں احتجاج کر رہی ہوں تو پیپلز پارٹی غیر موجود نہ ہو۔ مولانا فضل الرحمن البتہ کسی بھی طرح نئے سیٹ اپ کی تلاش میں ہیں جس میں ان کی کوئی گنجائش نکلنے کا امکان موجود رہے، چاہے وہ کوئی بھی سیٹ اپ ہو، اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں چاہتے۔ عوام کے مسائل سے کسے دلچسپی ہے۔

اس غیر واضح اور مبہم حکمت عملی کے باعث جلسوں میں کچھ ایسی چیزیں ہو رہی ہیں جس سے پوری مشق ہی بے کار جانے کا امکان ہے۔ مثلا نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی طرف سے ریاستی اداروں کے خلاف سخت زبان کے استعمال پر کسی آل پارٹیز کانفرنس میں اتفاق نہ ہوا تھا۔ جو کچھ ن لیگ کی طرف سے ہو رہا ہے وہ پی ڈی ایم کے اعلامیے کا حصہ نہ تھا۔ ظاہر ہے اس سے دوسری جماعتوں کو تکلیف ہونا ہی تھی اور وہ ہوئی۔ بلاول نے گوجرانوالہ جلسے کے اگلے ہی دن کہہ دیا جو کچھ نواز شریف نے کہا اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ صاف نظر آتا ہے جب کوئٹہ جلسے میں ن لیگ نے نواز شریف کو تقریر کرانے پر اصرار کیا ہو گا تو بلاول نے غیر حاضر رہنا مناسب سمجھا۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے کہا جاتا رہا موسم ساز گار رہا تو بلاول کوئٹہ جلسے میں شرکت کریں گے جبکہ میری اطلاع کے مطابق بلاول نے اپنی تقریر ایک دن پہلے ہی ریکارڈ کرا دی تھی اور کوئٹہ جلسے میں انکی شرکت کا کوئی ارادہ اور امکان تھا ہی نہیں۔ ایسے میں بہت حد تک امکان موجود ہے کہ بلاول مسلم لیگ ن کی دو شخصیات کے ذاتی ایجنڈے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے سے جلد انکار کر دیں، کترانے تو وہ ابھی لگے ہیں، مکمل لا تعلقی دیکھئے کب ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم کے تین جلسوں میں ہی واضح طور پر نظر آ گیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے اپنے سارے کارڈز کھیل دیے ہیں۔ نواز شریف اس بات کا یقین کر لینے کے بعد کہ اب ان کا سیاست میں کوئی کردار باقی نہیں رہا، صرف بدلہ لے کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور مریم نوازبڑھ چڑھ کر اپنے والد کا ساتھ دے کر اپنے سیاسی مستقبل کو دائو پر لگا رہی ہیں۔ ان دونوں باپ بیٹی سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا کہ پاکستان میں اقتدار کے حصول کا فارمولہ کیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ طاقت ور حلقوں میں اگر وہ قابل قبول نہ رہے اقتدار میں آنے کا امکان صفر رہے گا۔ نواز شریف نے تو الطاف حسین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی سیاست اور ملک واپسی کے تمام راستے مسدود کر ہی لیے ہیں، مریم اس راستے پر کیوں چل رہی ہیں یہ سمجھ سے باہر ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا اعتماد ان کے کارکنوں کی بنا پر ہے، وہ سمجھتے ہیں ان کے چند ہزار طلبہ ان کی طاقت ہیں جس کے بل بوتے پر وہ ریاست کو للکار سکتے ہیں، بلیک میل کر سکتے ہیں اور مرضی کے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ مولانا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ مجھے اگر کھیل کا حصہ نہ بنایا تو میں آپ کے گلے کی ہڈی بنا رہوں گا مگر مولانا کو سمجھنا چاہیے کہ اگر اگلے انتخابات میں بھی انہیں پارلیمنٹ میں نشست نہ ملی تو سڑکوں پہ رہنے سے انہیں کیا ملے گا اس لیے لہجے کی تلخی کو اس حد تک نہ لے جائیں کہ جہاں آدمی سسٹم کی ضد بن جاتا ہے۔

شہباز شریف کی حکمت عملی البتہ شاندار ہے، ضمانت کی درخواست واپس لے کر جیل جانے کا بروقت اور شاندار فیصلہ نہایت موزوں تھاجس کے بارے میں سوچ کر وہ دن رات مسکراتے ہوں گے۔