Saturday, 28 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Polio, Aur Kitne Dalail Chahiye?

Polio, Aur Kitne Dalail Chahiye?

بطور قوم ہمیں ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھنے کی عادت ہو گئی ہے۔ ہمیں ہر چیز میں سازش نظر آتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ خود غرض مغرب ہمیں پولیو وائرس کے خاتمے کے نام پر کچھ اور پلا رہا ہے۔ چلیے ہمارے سادہ ذہنوں میں موجود کچھ سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

-1 پہلا سوال یہ ہے کہ مغربی دنیا کیا اتنی بیوقوف ہے کہ ہمیں جان بوجھ کر پولیو وائرس کی جگہ کچھ اور پلا رہی ہے اور وہ پاکستانیوں میں وائرس ختم نہ کر کے خود کو ہمیشہ رسک پہ رکھنا چاہتی ہے کیونکہ پوری دنیا تب تک رسک پہ رہے گی جب تک دنیا کے کسی بھی ملک میں وائرس کا ایک بھی کیس موجود ہے۔

-2 دوسرا اہم نکتہ یہ کہ اگر پولیوکے قطروں کے ذریعے پاکستان کی آبادی کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو کیا امریکہ اور برطانیہ کے سائنسدان اتنے نااہل ہیں کہ ان کی دوا پاکستانیوں پر اثر ہی نہیں کر رہی۔ یعنی ننانوے فیصد پاکستانی پولیو کے قطرے پی بھی رہے ہیں اور آبادی مسلسل بڑھ بھی رہی ہے۔

-3 اگر پاکستان کی آبادی کم کرنے کی مغربی سازش کامیاب نہیں ہوئی تو وہ کیوں مسلسل اپنی ناکارہ دوا پاکستانیوں کو پلاتے رہنے پر اصرار کر رہے ہیں؟

-4 ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کئی سال کی مسلسل پریکٹس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستانیوں پر اس دوا کے کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوئے تو پھراپنے بچوں کویہ دوا پلانے میں ہرج ہی کیا ہے؟

-5 وہ والدین جو اپنے بچوں کو پولیوکے قطرے پلانے سے کتراتے ہیں وہ مغرب کی ایجاد کردہ دیگر بیماریوں کی دوائیں بچوں کو کیوں کھلاتے یا پلاتے ہیں؟

-6 مغربی دنیا کے لیے یہ کیوں ضروری ہے کہ وہ آبادی کم کرنے سمیت اپنے دیگر مقاصد صرف پولیو کے قطروں کے ذریعے ہی حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ دوسرے حفاظتی قطروں کے ذریعے یا پھر کسی اور دوا کے ذریعے اپنے یہ مقاصد حاصل کیوں نہیں کر لیتی؟

-7 وہ بے شمار لوگ جنہوں نے پولیو کے قطرے پیے اور وہ صاحب اولاد ہیں، ان پر فرنگیوں کی دوا نے اثر کیوں نہیں کیا؟

بے شمار دلائل دیے جا چکے ہیں، دنیا بھر کے ڈاکٹرز مستند رپورٹس جاری کر چکے ہیں، دنیابھر کے علماء فتوے دے چکے ہیں مگر ہم ہیں کہ وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔ پولیو کو مرض نہیں سمجھتے یا دنیا بھر میں آزمائی جانے والی دوا پر یقین نہیں۔ اس قوم کو یہ بات کیسے سمجھائی جائے کہ دنیا بھر سے پولیو وائرس کا ختم ہو جانا، ایک حقیقت ہے اور یہ خود بخود یا حادثاتی طور پر نہیں ہوابلکہ ان نتائج کے حصول کے لیے پچھلے تیس چالیس سال میں وائرس کے خاتمے کے لیے بنائی گئی دوا کا باقاعدگی سے استعمال کیا گیا ہے۔

یہاں تک کہ نائجیریا، چاڈ، گھانا، ملاوی، سوڈان، الجیریا اوربنگلہ دیش جیسے ممالک سے بھی یہ مہلک وائرس ختم کیا جا چکا ہے، یہاں تک کہ بھارت کی جھونپڑ پٹیوں پہ بسنے والے بے گھروں میں بھی یہ وائرس باقی نہیں رہا۔ کیا پاکستان اتنا گیا گزراہے کہ دنیا بھر کے کاغذات میں اس کانام افغانستان کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کے علاوہ دنیا میں صرف افغانستان ہی بچا ہے جہاں پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔

کتنی سبکی اور شرمندگی کی بات ہے کہ ایک پاکستانی جب دنیا کے کسی ائیر پورٹ پر پاکستان کا پاسپورٹ ہاتھ میں لیے اترے اور امیگریشن آفیسر اسے شک کی نگاہ سے دیکھے کہ کہیں یہ پولیو وائرس کا کیرئیر تو نہیں کیونکہ یہ پولیو زدہ ملک سے سفر کر کے آ رہا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ ہمیں شرمندگی سہنے کی عادت ہو گئی ہے، عزت نفس شائد معنی نہیں رکھتی۔ تبھی تو ہمارا نام افغانستان کے ساتھ جوڑے جانے پر ہمیں فرق نہیں پڑتا۔

پولیو کے قطروں کے حوالے سے دنیا بھر کے علماء فتویٰ جاری کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں دو باتیں فصاحت کے ساتھ کہی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ اس دوا میں کوئی غیر حلال اجزاء موجود نہیں اور دوسرا یہ کہ دوا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، علاج کی غرض سے کسی بھی چیز کو مناسب مقدار میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یعنی کوئی بھی دوا غیر شرعی یا حرام نہیں ہوتی، دوا صرف دوا ہوتی ہے اور اس کا مقصد صرف علاج کرنا ہوتا ہے۔

یہ بات بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلانا چاہتے ان کے پاس ٹھوس دلائل موجود نہیں وہ تو بس طرح طرح کے بہانے تراشتے رہتے ہیں۔ تازہ بہانہ یہ ڈھونڈا گیا کہ کورونا کی وجہ سے بچوں کو قطرے پلانے میں خطرہ ہے۔

پولیو ورکرز کے ہاتھوں یا کٹ کے ذریعے وائرس گھر میں داخل ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگوں کا یہ بہانہ بھی حکومت نے ختم کر دیاہے اور ایسی حکمت عملی تیار کی ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ کوئی شخص اس کیمپین کا حصہ بن ہی نہیں سکتا اور جو لوگ کورونا منفی ہیں وہ بھی پوری احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے پابند ہیں۔ لہذا بہترین حکمت عملی سے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ پولیو مہم کورونا سے متاثر نہ ہو پائے۔

یہ سب دلائل تو اپنی جگہ، جن پہ دلائل اثر نہیں کرتے ان پہ قانون کا سخت نفاذہونا چاہیے، جسے کوئی اور زبان سمجھ نہیں آتی اس پرسختی سے قانون کی زبان کا اطلاق ہونا چاہیے کیونکہ پولیو کے خاتمے کے لیے پر عزم پاکستانیوں اور پاکستان کے مستقبل کو چند ہٹ دھرم لوگوں کی ضد پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔