یہ رونا تو ہم روتے ہی رہتے ہیں کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیزتباہی کے دہانے پر پہنچ رہی ہیں۔ ماہرین تعلیم اکثر یونیورسٹیز کے کمزور نظام، اقربا پروری، میرٹ کی خلاف ورزی، بد عنوانی اور غیر قانونی بھرتیوں کے مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے تجویز کرتے ہیں کہ یونیورسٹیوں میں سیاسی مداخلت ختم کرتے ہوئے انہیں زیادہ سے زیادہ خود مختار بنایا جائے۔ یوں کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے جن باتوں پہ غور ہونا چاہیے تھا وہ یہ کہ2008 کے بعد بننے والی جن یونیورسٹیز کے سنڈیکیٹ کی سربراہی وزیر تعلیم کرتے ہیں انہیں ہٹا کر یہ ذمہ داری وائس چانسلرز کو سونپی جائے، حکمت عملی بنائی جانی چاہیے تھی کہ سینڈیکیٹ میں بیٹھے ہوئے تین تین ایم پی ایز سے جان چھڑائی جائے تا کہ سنڈیکیٹ کو غیر سیاسی بنایا جا سکے، اس بات پہ غور ہونا چاہیے تھا وائس چانسلر کے احتساب کا عمل زیادہ موثر اور شفاف بنایا جائے تا کہ وہ غیر قانونی بھرتیوں، اقربا پروری اور بدعنوانی کا جواب دہ ہو، نا کہ سنڈیکیٹ کے ممبرز کی حمایت سے سب مل بانٹ کر اودھم مچائیں۔
ان باتوں پر غور کی بجائے ہمارے سیاسی دانشوروں اور افسر شاہی نے مل کر یونیورسٹیز ترمیمی ایکٹ تیار کیا ہے جس کا نام ہے Public Sector Amendment Act 2020۔ اس مجوزہ ایکٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ سرچ کمیٹی وائس چانسلر کے انتخاب کے وقت کسی بھی ایسے شخص کو انٹرویو کے لیے بلا سکتی ہے جس نے اس پوزیشن کے لیے اپلائی ہی نہ کیا ہو۔ دوسرا یہ کہ وائس چانسلرز کوسنڈیکیٹ کی صدارت سے ہٹانے کی تجویز کی گئی ہے۔ اب وزیر اعلی کی سفارش پر چانسلر کسی بھی ریٹائرڈ جج، سول سرونٹ یعنی بیوروکریٹ یا ریٹائرڈ وائس چانسلر کو سنڈیکیٹ کی سربراہی کے لیے کہہ سکتا ہے۔
سادہ زبان میں یونیورسٹیز کو سیاسی شخصیات اور بیوروکریسی کے زیر اثر لانے اور ان کی خود مختاری کو ختم کرنے کا ایکٹ تیار کیا گیا ہے۔ سیاستدانوں کو ایک بات پر ہمیشہ تکلیف رہی ہے کہ اگر یونیورسٹی میں اپنے بندے بھرتی نہیں کرا سکتے، اپنی مرضی سے منصوبے نہیں بنوا سکتے تو کیا فائدہ سیاست کرنے کا۔ سیاست کا یہ وہی تصور ہے کہ تھانے میں اپنا بندہ ہونا چاہیے، پٹواری اور تحصیل دار اپنا ہونا چاہیے، نیب میں اپنا بندہ ہوناچاہیے، الیکشن کمیشن کا ممبر اپنا آدمی ہونا چاہیے اور اب یونیورسٹی کا وائس چانسلر اور سنڈیکیٹ کا چئیرمین بھی اپنا بندہ ہونا چاہیے۔ اگرچہ سینڈیکیٹ میں ایم پی ایز کی موجودگی سے کچھ نہ کچھ سیاسی مقاصد تو حاصل ہوتے ہیں مگر یونیورسٹیاں سو فیصد ہاتھ میں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی امیدوار یونیورسٹی میں نوکری کے لیے اپلائی کرنے کے بعد وزراء اور سنڈیکیٹ میں بیٹھے ایم پی ایز کے ساتھ رابطے کاذریعہ ڈھونڈنے لگتا ہے۔ پہلے یہ کام کچھ مشکل تھابھی توایکٹ پاس ہونے کے بعد آسان ہو جائے گا۔
سوال سادہ سا ہے، ایک ریٹائرڈ جج کا کیا کام کہ وہ یونیورسٹیز کا نظام چلائے۔ جسے نظام تعلیم کا حصہ رہنے اور کام کرنے کا بنیادی تجربہ یا سمجھ بوجھ نہیں وہ یونیورسٹی کو کیسے چلا سکتاہے۔ ایک بیوروکریٹ کو یونیورسٹی سینڈیکیٹ کا چئیر مین اگر اس لیے بنایا جا رہا ہے کہ وہ عقل کُل ہوتا ہے اور وہی یونیورسٹیز کے تباہ حال نظام کی آخری امید بچا ہے تو سوال یہ ہے کہ بیوروکریٹس نے کیا پہلے اس ملک کو جنت بنا دیا ہے جواب ان کی خدمات یونیورسٹیز میں لی جا رہی ہیں؟ لہذا بدنیتی پر مبنی سیاسی فائدے کے لیے کوئی ایکٹ لانے کی بجائے درج ذیل نکات پرسنجیدگی سے غور ہونا چاہیے
:-1 وائس چانسلر سرچ کمیٹی کو لامحدود اختیارات دیے جانے کی بجائے ان کے لیے احتساب کا موثر نظام بنایا جائے تا کہ شفاف پس منظر کا قابل آدمی وائس چانسلر کی کرسی پر بیٹھے۔ -2 وائس چانسلر کو سیاسی بندشوں سے آزاد کر کے زیادہ سے زیادہ خود مختار بنایا جائے تا کہ وہ یونیورسٹی کے نظام کو آزاد انہ طور پر چلا سکے۔ -3 وائس چانسلر کو کڑے احتساب کی نگرانی میں رہنا چاہیے تاکہ وہ غیر قانونی بھرتیوں، اقربا پروری اور بدعنوانی سے دور رہے۔ -4 وزیر تعلیم کو سنڈیکیٹ کی چئیرمینی سے فارغ کیا جائے تاکہ یونیورسٹیاں سیاست سے پاک ہو سکیں۔ -5 سنڈیکیٹ سے تین تین ایم پی ایز کو نکال باہر کیا جائے تا کہ یونیورسٹیز میں بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ میرٹ پر ہوں۔ -6 یونیورسٹیز کو بیوروکریسی کے نرغے میں ڈالنے سے گریز کیا جائے۔ -7 ایسا کوئی بھی نظام لانے سے گریز کیا جائے جس سے شعبہ تعلیم کا صفر تجربہ رکھنے والے لوگ یونیورسٹیوں پر قابض ہو جائیں۔
ہائیر ایجوکیشن کا ڈھانچہ پہلے ہی فنڈز کی عدم دستیابی اور حکومتی عدم توجہی کے باعث تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہائر ایجوکیشن کا بجٹ ہر سال سکڑ کر کم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستانی طلبہکے لیے فنڈز نہ ہونے کے باعث ریسرچ کا کام تقریبا ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ گرانٹس کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں پبلک سیکٹر امینڈمینٹ ایکٹ جیسے بد نیتی پر مبنی فیصلے رہی سہی کسر بھی نکال دیں گے، یونیورسٹیاں سیاستدانوں اور افسر شاہی کے ہاتھ کا کھلونا اور وائس چانسلر ان کا بغل بچہ بن جائیگا۔ عمران خان جب کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے تو کہا کرتے تھے، کپتان کے ہاتھ میں مکمل اختیار ہونا چاہیے تاکہ وہ ٹیم کے لیے فیصلے کر سکے۔ پھر وہ کہا کرتے تھے کرکٹ بورڈ کو سیاسی دبائو سے آزاد ہونا چاہیے۔ اب عمران خان پاکستان کے کپتان ہیں، کیا وہ نہیں کہیں گے کہ یونیورسٹی کا کپتان بھی اپنے فیصلوں میں خود مختار اور سیاسی دبائو سے آزاد ہونا چاہیے؟
ہاں البتہ مجوزہ ایکٹ میں شامل کیے گئے ایک نکتے سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ وائس چانسلرز کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ ان پر پیڈا(PEEDA) لگنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ سرکاری یونیورسٹیوں کے وہ وائس چانسلرز جو زمین پر خدا بنے بیٹھے ہیں، افسر شاہی کے ساتھ ملاپ اور سیاسی گٹھ جوڑ کے سہارے جنہوں نے خوب مال بنایا ہے، انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے۔ انہیں ہتھ کڑی بھی لگے تو کسی کو اعتراض نہ ہو لیکن سیاست سے یونیورسٹیز کو بہرحال پاک ہونا چاہیے۔