ن لیگ اپنے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کا چیلنج درپیش ہے تو دوسری طرف اگلے انتخابات کی ایسی حکمت عملی تیار کرنی ہے جواسے انتخابات جتوا کر پارٹی قیادت اور شریف خاندان کے مشکلات کا خاتمہ کر سکے۔ یہ ن لیگ پر آیا ایک ایسا دور ہے جس میں کارکن ہی نہیں قیادت بھی شدید کنفیوژن کا شکار ہے۔ ایک دھڑے کو لگتا ہے شہباز شریف کی حکمت عملی درست ہے اور دوسرا سمجھتا ہے کہ نواز شریف کے بیانیے کی مخالفت سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہو گی۔ بہت عرصے تک تو دونوں دھڑے اپنے خیالات کو پارٹی اجلاسوں اور ڈرائنگ رومز تک چھپا کر رکھنے میں کامیاب رہے لیکن اب یہ مخالفت ٹیلی ویژن پر نظر آنے لگی ہے۔
اس کی ابتداشہباز شریف نے کی ہے۔ بغیر لگی لپٹی رکھے انہوں نے کہہ دیا کہ بھائی ضد پہ نہ اڑے ہوتے تو آج وزیر اعظم ہوتے۔ اگرچہ یہ بات انہوں نے مختلف الفاظ میں کہی مگر مطلب یہی تھا۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ انہیں بھائی کے نکتہ نظر سے اختلاف ہے۔ وہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں مگر بھائی ایسا نہیں چاہتے۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اگر انہیں باہر جانے دیا جائے تو وہ بھائی کے پائوں پکڑ کر انہیں منانے کی کوشش کریں گے کہ جو ہوا سو ہوا، اب آگے بڑھیں۔ دوسری طرف شاہد خاقان عباسی نے ٹیلی ویژن پر آ کر صاف صاف کہہ دیا شہباز شریف سے پوچھوں گا کہ وہ کون سی حکمت عملی ہے جسے اپنا کر 2018کا الیکشن جیتا جا سکتا تھا؟ حالانکہ اسکا جواب انہیں بھی معلوم ہے لیکن پھر بھی وہ شہباز شریف سے سوال کرنا چاہتے ہیں۔
ن لیگ میں کنفیوژن اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ پارٹی رہنمائوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ نواز شریف کے واپس نہ آنے کے حوالے سے کیا موقف پیش کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں مختلف رہنما طرح طرح کے رنگ برنگے بیانات دیتے نظر آتے ہیں۔ شہباز شریف نے حالیہ انٹرویو میں کہا نواز شریف کی صحت ٹھیک نہیں اور ان کے واپس نہ آنے کی وجہ یہی ہے، جب تک وہ صحت یاب نہیں ہوں گے واپس نہیں آئیں گے۔ دوسرا بیانیہ یہ سامنے آیا کہ چونکہ حکومت کا نیب کے ساتھ گٹھ جوڑ ہے، اس نظام سے نواز شریف کو انصاف ملنے کی کوئی توقع نہیں اس لیے وہ واپس نہیں آ ئیں گے۔ مریم نواز نے ایک الگ موقف پیش کر دیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا اگر حکومت ان کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تو وہ آج ہی واپس آنے کے لیے تیار ہیں۔ لہذا پارٹی کے اندر الگ اگ دھڑے اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں، کوئی یکجہتی اور ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔
ایسے میں کارکن نہایت خاموشی سے بیٹھا ہوا کی سمت دیکھ رہا ہے جو ابھی ساکت ہے، نہیں معلوم کہ کدھر کو چل پڑے گی۔ خدشہ ہے کہ یہ دو رخی حکمت عملی کارکن کو بدظن نہ کر دے۔ شہباز شریف کو اگلے انتخابات کی فکر ہے وہ مقتدر حلقوں کے ساتھ اپنے تعلقات ٹھیک کرناچاہتے ہیں۔ مریم نواز کو اپنے سیاسی مستقبل کی فکر ہے، وہ مستقبل میں پارٹی کی کمان کرنا چاہتی ہیں، والد کی گدی پہ بیٹھنا چاہتی ہیں۔ شہباز شریف اپنی حکمت عملی کے ذریعے ان کے خوابوں کی راہ میں حائل ہونا چاہتے ہیں۔ مریم نواز کو فکر ہے کہ اگر چچا کا فارمولا تسلیم کر لیا گیا تو نتیجے میں حاصل ہونے والے ثمر کے حقدار بھی وہی ہوں گے۔ انہیں کیا ملے گا؟ ایسے میں ان کے لیے سیاسی طور پر ممکن نہیں کہ اپنا راستہ چھوڑ کر چچا کا راستہ اپنائیں اور سیاسی خودکشی کریں۔
ان سب کے ساتھ ساتھ شریف خاندان کے افراد کو عدالتوں میں چلنے والے کیسز نے پریشان کر رکھا ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ اگر اقتدار میں نہ آئے تو جیل بھگتنے یا مستقل جلا وطنی اختیار کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا، یوں اگلا الیکشن جیتنا شریف خاندان کی بقا کے لیے بھی لازم ہے۔ نیب کورٹ لاہور میں شہباز شریف کے خاندان پر چلنے والا منی لانڈرنگ کا کیس ہو یا پھر اسلام آباد ہائیکورٹ میں مریم اور نواز شریف کے خلاف سنی جانے والی اپیلیں، شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں پر ایف آئی اے کی جانب سے پچیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات کا معاملہ ہویا پھر جاتی امرا میں 127 کنال اراضی پرقبضے کا کیس۔ اگر شریف خاندان اقتدار میں نہیں آتا تو ان تمام کیسز کی تلوار لٹکتی رہے گی اور یہ تمام لوگ بے بسی کی تصویر بنے اندر باہر آتے جاتے رہیں گے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو شہباز شریف کو مفاہمت کے لیے مہمیز کرتا ہے۔
مریم نواز کی کمزور حکمت عملی کے باعث پی ڈی ایم کا بٹوارا ہو چکا ہے۔ پیپلز پارٹی آج بھی یہ سمجھتی اور برملا اظہار کرتی ہے کہ مریم نواز کے رویے اور بیانات نے انہیں پی ڈی ایم سے نکلنے پر مجبور کیا۔ اب اپوزیشن کے پاس ایسا کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں جہاں اجتماعی طور پر کھڑے ہو کر حکومت کے خلاف فیصلہ کن معرکے کا اعلان کیا جا سکے۔ ویسے بھی اب ایسا نہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے نہ شہباز شریف اور نہ ہی منتخب نمائندے، چاہے ان کا تعلق اپوزیشن کی کسی بھی جماعت سے ہو۔
اس وقت ن لیگ کا سب سے بڑا مسئلہ سمت کے تعین کانہ ہونا ہے۔ آپ سوچیے کشتی بیچ سمندر میں کھڑی ہو، اسے معلوم نہ ہوا جانا کدھر ہے، یا ایک صحرا نورد بیچ صحرا میں کہیں موجود ہو اور اپنی سمت کھو بیٹھے، ایسے لوگوں کی بقا کے امکانات یقینا کم ہو جائیں گے۔ ن لیگ کو بھی اپنی سیاسی بقا کا مسئلہ درپیش ہے کیونکہ اسے اپنی سمت کے تعین کا چیلنچ درپیش ہے۔ کشتی میں سوار ہر شخص دوسرے کو بتارہا ہے کہ یہ نہیں درست سمت تو وہ ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہا ہے اور نہیں جانتا کہ کدھر کو جائے۔