Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Afghanistan Mein Wasee Ul Bunyad Hukumat Ke Liye Pakistan Mutharrik

Afghanistan Mein Wasee Ul Bunyad Hukumat Ke Liye Pakistan Mutharrik

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی جنگ آزادی صرف طالبان نے لڑی۔ اپنے اپنے علاقوں کے شیر کہلانے والے کئی جنگجو سردار اور شمالی اتحاد والے امریکہ کے سہولت کار رہے، اپنے ہی بھائیوں پر میزائل باری کرواتے رہے۔ گورے ہوں، کالے ہوں، زرد ہوں یا گندمی رنگ قوم، جابرانہ حکومت کے لئے مقامی آبادی میں پھوٹ ڈال کر کام چلاتے ہیں۔ طالبان نے بیس برس تک اپنے وجود کا احساس دلایا۔ باقی دھڑے بیدار رہتے تو امریکی انخلا کے بعد ان کا حق اقتدار بھی تسلیم کیا جاتا۔ طالبان تنہا دعویدار تھے اس لئے ان کی کامیابی کو امریکہ کے خلاف فتح سمجھ لیا گیا۔ یہ تاثر اس قدر مضبوط ہے کہ خود امریکی حکام اس کے اثر میں صدمے سے دوچار دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورت حال کے اثرات پاکستان پر مرتب ہوئے ہیں، کچھ مثبت اور بعض منفی۔ مثبت یہ کہ افغانستان ایک ڈیٹرنس کے طور پر دوستوں میں شامل ہوا ہے۔ اس ڈیٹرنس کا اثر بھارت کی چیخ و پکار اور خطے میں پاکستان کا اچانک اہم ہو جانا ہے۔

طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد محتاط انداز اختیار کیا ہے۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور سہیل شاہین نے مقامی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے سامنے مختصر اور واضح موقف پیش کیا۔ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرائی۔ امریکی اور نیٹو فوجیوں کو واپسی کے دوران تحفظ فراہم کیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد قتل و غارت نہیں کی۔ بعض خواتین گروپوں کے احتجاج پر تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ان سب فیصلوں سے نظر آیا کہ اس بار طالبان نے خود کو دنیا سے الگ تھلگ رکھنے کی بجائے عالمی برادری کے ساتھ چلنے کا سوچ رکھا ہے۔ افغانستان کے آٹھ ہمسایہ ممالک اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ چین، روس، تاجکستان، ازبکستان، قازقستان، کرغیزستان، ایران اور پاکستان چاہتے ہیں بدامنی ختم ہو اور افغانستان صدیوں کی بدامنی سے نجات حاصل کر کے جدید قومی ریاست کی شکل میں آگے بڑھے۔

طالبان کو اقتدار کے بعد گورننس کے مسائل درپیش ہیں۔ پولیس اور قومی فوج نہ ہونے کے باعث ہر شہر اور قصبہ مقامی طاقتور سرداروں کے زیر اثر ہے۔ قانون کی عمل داری کا مقصد ریاست کی بالادستی نہیں افراد کی طاقت تسلیم کرنا ہے۔ جنگجو سرداروں کو اس سے غرض نہیں کہ کابل میں کس کی حکومت ہے، وہ اپنے علاقے پر حکم چلانا چاہتے ہیں، چاہتے ہیں کہ پتہ بھی ان کی مرضی سے حرکت کرے۔ ہوا بھی ان سے پوچھ کر سانس لے۔ دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں ایسے سردار مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پختونوں کی اکثریت طالبان کے ساتھ ہے لیکن تاجک، ازبک، ترکمان اور ہزارہ قبائل کی نمائندگی اقتدار میں نہیں، افغانستان ایک قبائلی ریاست نہیں، قبائلی معاشرہ ہے۔ پختون طالبان کے مقابلے پر باقی نسلوں اور قبیلوں کے لوگ سردست کمزور ہیں لیکن طالبان نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو پھر انہیں ان سب کو اقتدار میں شریک کرنا پڑے گا۔

امریکہ افغانستان سے نکل کر رونے نہیں بیٹھ گیا۔ اس نے دو دفاعی اتحاد فعال کر دیے ہیں۔ سائوتھ چائنا کی سمندری گزر گاہ پر چین کو گھیرنے کے لئے امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت نے کواڈ بنایا ہے۔ دوسرا اتحاد آکس ہے، جس میں آسٹریلیا، انگلینڈ اور امریکہ شامل ہیں۔ یعنی چین سے مقابلہ کے لئے امریکی مفادات کو دو پرتوں میں رکھا گیا ہے۔ چین کا سب سے موثر ہتھیار اس کی تجارت ہے۔ امریکہ چین کی تجارتی صلاحیت کو کم کر کے اس کا بین الاقوامی اثرورسوخ گھٹانا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امن ہوتا ہے تو چین سی پیک کے ذریعے فوری طور پر وسط ایشیا اور آگے یورپ تک اپنا مال بھیجنے کا متبادل راستہ حاصل کر سکتا ہے۔ خطے کی صورت حال انتہائی پیچیدہ اور پل پل بدل رہی ہے، پاکستان کو افغانستان میں امن درکار ہے۔ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کے مابین معاہدہ کرایا ہے۔ مغرب میں یہ تاثر خاصا مضبوط ہے کہ طالبان پاکستان کی ہر بات مانتے ہیں۔ نیٹو کی شکل میں 28مغربی ممالک افغانستان میں رہے ہیں۔ ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے صرف امریکہ کی سی آئی اے پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ اپنا اثرورسوخ پیدا کرنے کی کوشش بھی کی۔

بین الاقوامی برادری کی اصطلاح دراصل ان ہی مغربی ملکوں کے لئے مستعمل ہے ورنہ غریب اور کمزور ملکوں کو کبھی کسی نے حملہ کرتے دیکھا یا اقوام متحدہ میں ان کے ووٹ کی اہمیت نظر آئی؟ اب بین الاقوامی برادری چاہتی ہے کہ طالبان دوسرے گروپوں کو اقتدار میں شامل کریں تاکہ دنیا سے مغربی ممالک کی شکست کا تاثر ختم ہو سکے۔ کچھ کا خیال ہے اس طرح افغان معاشرے میں مغرب کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے گروہوں کو مضبوط ہونے کا موقع مل سکے گا، امریکہ اور بھارت اپنے لوگ شامل کروانے کی چال چل سکتے ہیں۔ ایسے کئی محقق اور مضمون نگار موجود ہیں جو اس قومی حکومت کو نیویارک ٹائمز سے لے کر دی اکانومسٹ تک میں امریکہ کی حکمت عملی کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ حالات کا جبر ہے کہ پاکستان کو بھارت کی جانب سے جارحیت کے اشارے مل رہے ہیں، شرط یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی مفادات کا تحفظ اب پاکستان کرے۔ امریکہ سوچ چکا اب پاکستان کو طے کرنا ہے کہ امریکی مفادات کی کون سی پرت میں اس نے تعاون کا حصہ ڈالنا ہے۔ یقینا ہم اپنے دوست چین کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتے۔

چین، روس اور وسط ایشیا کے ستان ممالک اس صورت حال پر پہلے سے غور کر رہے ہیں۔ پاکستان کی میزبانی میں بعض مشاورتی اجلاس ہو چکے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے گئے وزیر اعظم عمران خاں نے طالبان سے مذاکرات کئے ہیں۔ خطے کے ممالک کے نمائندے ان مذاکرات میں شریک ہوئے۔ اطلاع یہ ہے کہ تمام ہمسایہ ممالک افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت پر متفق ہیں۔ اگلے چند روز میں طالبان کا موقف سامنے آ جائے گا۔ جنوب ایشیا کی جگہ وسط ایشیائی سیاست سے منسلک ہونے والے پاکستان نے ممکنہ مسلح تنازع کو ایک بار پھر مذاکرات سے طے کرنے میں اہم کردار ادا کر دیا ہے۔