لاہور سے صبح چھ بجے نکلے۔ میرے گھر سے شوکت خانم ہسپتال تین منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ شوکت خانم سے عبدالستار ایدھی روڈ تین منٹ میں ہی موٹر وے پر لے جاتی ہے۔ فارچونر کا اے سی، آرام دہ نشستیں اور ہموار موٹر وے۔ پنڈی بھٹیاں جا کر ناشتہ کیا۔ پراٹھا کے نام پر چوپڑی روٹی، آملیٹ اور دال ماش، موٹر وے پر سفر کے دوران جس قدر ہو سکے سادہ کھانا کھائیں۔ ایک تو نرخ بہت زیادہ ہوتے ہیں، دوسرا جانے کیا کچھ کھلا دیا جاتا ہے۔ تقریباً دس بجے ہم اسلام آباد کو پار کر کے مردان بونیر انٹرچینج سے نیچے اتر چکے تھے۔ دائیں طرف موڑ کاٹا، سڑک زیر تعمیر تھی، کوئی دو کلو میٹر بعد پھر دائیں طرف مڑے۔ یہ روڈ ضلع بونیر کی تحصیل رستم کی طرف جاتا ہے۔ رستم بہت پررونق علاقہ ہے۔ ہمیں اس کی مین سڑک پر سے آگے جانا تھا۔ سڑک کے دونوں اطراف دکانیں ہیں۔ ٹریفک اہلکار موجود لیکن پھر بھی گاڑیاں رک رک کر چلتی تھیں۔ کوئی 20منٹ لگے۔ پھر جی پی ایس سسٹم نے اچانک ایک چھوٹی سی گلی میں مڑنے کو کہا جو ہمارے دائیں ہاتھ تھی۔ محسوس ہوا کہ گوگل ہمیں بھول بھلیوں میں ڈال رہا ہے۔ اس کی ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ تقریباً پون گھنٹہ اسی سڑک پر رہے جو ہمیں چار چار پانچ پانچ گھروں پر مشتمل دیہات کے سامنے سے گزارتی رہی۔ فصلیں اردگرد تھیں۔ سکولوں سے آتے بچے بچیاں، پیدل جاتیں خواتین۔ کچھ روائتی برقعے میں، زیادہ تر نے صرف چادر لے رکھی تھی۔ پنجاب کے دیہات جیسا سماجی ماحول نظر آیا۔
بھوک چمک چکی تھی لیکن ہم تھوڑا آگے جا کر کھانے کا سوچ کر شہر سے نکل آئے۔ اب رستم کی حدود ختم ہو رہی تھیں۔ اچانک ہم پتھروں کی وادی میں آ گئے۔ سڑک چڑھائی پر آ گئی۔ ایک دو موڑ کاٹتے ہی سارا لینڈ سکیپ تبدیل ہو گیا۔ بڑے بڑے پتھر دائیں طرف پہاڑوں کے کناروں پر جمے کھڑے تھے۔ اکثر کا حجم دس فٹ تھا۔ بائیں طرف ڈھلوان تھی، اوپر سے پتھر لڑھک کر سڑک پر گرتا ہے اور پھر یہاں ڈھلوان میں ساتھ ہی تھم جاتا ہے۔ یہ تصور کر خوف آنے لگا کہ ہمارے سامنے ایسا ہوا تو کیا ہو گا۔ ڈھلوان کے نیچے کھیت تھے۔ جہاں لوگوں نے مکئی لگا رکھی تھی۔ پہاڑ سبزے سے خالی تھے۔ سنتھا کی جھاڑیوں کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی، بھوک کو ٹالنے کے لئے تھوڑے سے بادام اور کوک کا سہارا لیا۔ لگ بھگ ایک گھنٹے کا سفر کیا ہو گا کہ پہاڑوں پر درختوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ درخت کسی علاقے کا جغرافیہ، آب و ہوا، سطح سمندر سے بلندی وغیرہ جانچنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ میں نے آصف سے پوچھا باہر کا درجہ حرارت کیا ہے، گاڑی کا میٹر 32بتا رہا تھا۔ رستم میں 34تھا۔ اب پہاڑوں پر سبزے کی رونق آ چکی تھی۔ ہر گھنٹے بعد ایسی سڑک اور راستہ اختیار کرنا پڑتا جو پہلے سے بھی خراب ہوتا۔ اردگرد آبادی بہت کم ہے۔ کوئی کار والا آ جائے یا گاڑی قریب ہو جائے تو بہت مشکل ہو سکتی ہے۔ خیر اللہ اللہ کر کے ضلع شانگلہ کی تحصیل مارتونگ پہنچے۔ ڈیڑھ گھنٹہ رکنے کے بعد ہم پانچ بجے لاہور کے لئے روانہ ہو گئے۔
اس بار ہم نے بہتر راستہ پوچھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے دو لوگ مارتونگ آئے تھے، انہوں نے موٹر وے تک پہنچانے کا کہا۔ ایک صاحب نے سوات جانا تھا۔ ہم نے انہیں بٹھا لیا۔ ویسے بھی ہمیں سوات تک راستے کا علم نہ تھا۔ گوگل جانے کہاں لے جاتا۔ پھر اندھیرا ہونے سے پہلے پہاڑی علاقے سے نکلنا تھا۔ سوات والے صاحب ہماری رہنمائی کر رہے تھے۔ شانگلہ سے پورن، خاض خیلی، مینگورہ اور پھر سوات شہر سے ہوتے ہوئے ہم موٹر وے تک پہنچے تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ سوات میں بہت سارے پررونق ہوٹل نظر آئے، شہر کے اہم چوک پر فلائی اوور بنایا جا رہاہے۔ جس سے موٹر وے پر سفر کرنے والے آسانی سے شہر میں داخل ہو سکیں گے۔ سارے راستے اس نیت سے کھانا نہ کھایا کہ جلد موٹر وے تک پہنچ جائیں۔ شانگلہ میں جہاں بہت چڑھائی اچانک شروع ہوئی تھی اور بادل سڑک سے آ ملے تھے وہاں ایک ڈھابے سے چائے پی۔ میرے بچپن کے دوست آصف کا خیال ہے کہ یہ اس کی زندگی کی بہترین چائے تھی۔ چائے واقعی لاجواب تھی۔ واپسی کا راستہ گھنے درختوں، بادلوں اور شام کے ملگجی رنگ کی آمیزش سے خوابناک سا تھا۔ درجہ حرارت بھی 22کے قریب جا پہنچا۔ یہ راستہ رستم والے راستے سے کوئی ایک سو کلو میٹر طویل تھا لیکن سڑکوں کی حالت، آبادی، لینڈ سکیپ وغیرہ اچھے ہیں۔ سڑک کے ساتھ چلنے والا چشمہ ایک جگہ بڑا سا نالہ بن جاتا ہے۔ پھر اس نالے میں سے چھوٹا نالہ الگ ہو جاتا ہے۔ پٹرول معمول کے نرخوں سے ایک ڈیڑھ روپیہ زیادہ میں ملتا ہے۔
اسلام آباد انٹر چینج پار کیا تو بھوک ناقابل برداشت ہو چکی تھی۔ تنور کی گرم روٹی کی مہک تصور میں حواس پر طاری ہو رہی تھی۔ ایک جگہ آئی۔ دیکھا تمام فاسٹ فوڈریسٹورنٹس، آئس کریم اور کافی شاپس ہیں۔ سخت مایوسی ہوئی۔ آخر برگر، فرائز اور فرائیڈ چکن پر اکتفا کیا۔ کھانا معدے میں اترا تو ایک آسودگی سارے بدن میں پھیل گئی۔ ایک گھنٹہ چلے ہو ں گے کہ مجھے لگا ہم دونوں نیند میں ہیں۔ گاڑی چلانا مشکل ہو رہی تھی۔ کبھی لگتا ہم موٹر وے نہیں پہاڑی سڑک پر ہیں، کبھی معلوم ہوتا کوئی گاڑی سامنے آ گئی، بریک لگتی تو سڑک خالی نظر آتی۔ ٹرکوں کے آرام والے حصے پر گاڑی کھڑی کی۔ ہم پندرہ منٹ سوئے، منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، چائے پی اور پھر روانہ ہو گئے۔ سرگودھا انٹرچینج کے قریب ایک بار پھر نیند کا غلبہ ہوا۔ دوبارہ گاڑی کھڑی کی۔ آدھا گھنٹہ نیند لی اور عازم لاہور ہوئے۔ میں چھ بجے صبح گھر پہنچا۔ 24گھنٹے میں ہم ڈیڑھ ہزار کلو میٹر کا سفر کر آئے تھے۔ اس میں دس گھنٹے دشوار گزار پہاڑی سڑکوں کا سفر تھا۔ مجھے دفتر پہنچنا تھا۔ تین گھنٹے سونے کے بعد بیدار ہو گیا۔ ہم نے سوچا ہے کہ دوبارہ ان علاقوں میں جانا ہوا تو رات اسلام آباد رہ کر نکلیں گے تاکہ اگلے دن واپسی ہو سکے ورنہ رات شانگلہ، مینگورہ یا سوات کے کسی پر سکون ہوٹل میں گزاریں۔