Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Apni Dunya Badlain

Apni Dunya Badlain

ڈاکٹر افتخار ریڈیو پاکستان اسلام آباد میں پروڈیوسر تھے جب ان سے پہلی بار ملاقات ہوئی۔ ہم دونوں لاہور سے تھے اور اسلام آباد پنڈی میں مقیم۔ پھر وہ کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کرنے باہر چلے گئے۔ واپس آئے اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔ اب کامسیٹس میں ہیں۔ افتخار نے ریسرچ پیپر اور تصوراتی دنیا کی سائنس کے ساتھ عملی کام بھی کیا۔ لاہور کی ایک بڑی ہائوسنگ سوسائٹی میں ان کے زیر نگرانی بائیو گیس پلانٹ لگایا گیا ہے۔ سوسائٹی کے مکین صاف ستھرے گھروں میں گیس چاہتے تھے، محکمہ گیس کے پاس کنکشن کی گنجائش نہ تھی۔ افتخار نے پندرہ سے بیس لاکھ میں بائیو گیس پراجیکٹ تیار کر دیا۔ اب سوسائٹی کے 5سو سے زیادہ گھروں میں اس پلانٹ سے گیس فراہم ہوتی ہے۔ اوسطاً روزانہ ایک ٹرالی گوبر استعمال ہوتا ہے جو قریب ہی سے مل جاتا ہے، پلانٹ کی خصوصیت یہ ہے کہ گوبر کی بدبو کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ اس سے دوہرا فائدہ ہوا۔ ایندھن کے لئے گیس مل گئی اور باڑے والوں کو گوبر ٹھکانے لگانے کی سہولت حاصل ہو گئی۔ ڈاکٹر افتخار صاف پانی کے گھریلو سطح کے منصوبوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔ ان کا یہ خیال نہایت موزوں ہے کہ صاف پانی کی طرح شفاف ماحول کیلئے ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔

احسن بٹ عمدہ مترجم ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک مضمون کا تذکرہ اپنے فیس بک اکائونٹ پر کیا۔ اس مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ایک کمپنی ایسی انٹینا ڈش تیار کر رہی ہے جو ایک سیارے کے سگنلز دوسرے سیارے پر پہنچا سکیں گی۔ یوں سمجھیں آپ زمین سے نشر ہونے والے پروگرام مریخ پر دیکھ سکیں گے۔ کمپنی اس وقت 600ڈشیں سالانہ بنا رہی ہے جبکہ بڑھتی ہوئی طلب کے باعث یہ پیداوار سالانہ ایک لاکھ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

امریکہ اور مغربی ممالک سرمایہ کاری کی نئی جہتوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہاں خلائی سائنس کے شعبے میں سرمایہ لگایا جا رہا ہے، نئی اور متوقع بیماریوں کے انسداد کی خاطر ویکسین تیاری پر اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں، پاکستان جیسے پسماندہ اور اس سے بھی زیادہ افلاس زدہ ملکوں کو فنڈز دیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے ہاں ماحول اور پانی کو صاف رکھنے کے طریقے آزمائیں۔ ہمارے وزراء اور سرکاری افسر مل ملا کر ایسے فنڈز ہضم کر جاتے ہیں۔

معاشرے اب جنگوں سے نجات حاصل کر رہے ہیں، جنگیں دوسروں پر کنٹرول کی خواہش بڑھاتی ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو یورپی ریاستوں میں فوجی بجٹ کی بجائے گرین انرجی کا بجٹ نہ بڑھتا۔ تین سال پہلے کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ 2018ء کے اختتام تک ماحولیاتی ٹیکنالوجی پر 279.8ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔ اس سلسلے میں رقوم کی منتقلی کا مجموعی حجم 393.8ارب ڈالر رہا۔ مشہور ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کے آئی ٹی سربراہ اینڈریو ہیٹن کا کہنا ہے کہ ماحولیات پر سرمایہ کاری آپ کی رقم بچاتی اور مستقبل میں توانائی بحرانوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

بجلی سے چلنے والی گاڑیوں نے پاکستان میں خریداروں کی توجہ حاصل کی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور چین بجلی و سولر پاور سے چلنے والی گاڑیوں کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ اربوں ڈالر سے منصوبے تیار ہوئے۔ اکثر ممالک ان گاڑیوں کی آزمائش کرنے کے بعد اب مارکیٹ میں بھیجنے کے قابل ہو چکے ہیں۔ دھوئیں اور شور سے بھری سیاہ سڑکوں پر ہمیں اگلے چند برسوں میں بے آواز اور آلودگی سے پاک گاڑیاں دوڑتی نظر آئیں گی۔ آسمان ایک بار پھر نیلا دکھائی د ے گا اور اس پر بادلوں کے سفید گھوڑے دوڑتے نظر آئیں گے۔ رات کی چنری میں تارے ٹنگ جائیں گے اور جگنو ایک بار پھر جھاڑیوں میں جگمگاتے اڑیں گے۔

ٹیکنالوجی دنیا کو بدل رہی ہے، یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اپنی دنیا کو کباڑ، دھوئیں، کیمیائی مادوں، شور اور زہر سے بھر لیں یا سرسبز، پرسکون اور شفاف منظر اپنے اردگرد تخلیق کر لیں۔ برطانوی حکومت نے اپنے ہاں ایک سکیم متعارف کرائی ہے۔ اس سکیم کے تحت ایسے برطانوی محققین اور اختراع پسند کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ جنہوں نے انرجی ٹیکنالوجیز، قیمت، فضلے اور سکیورٹی کے معاملات کو قابل قبول سطح پر لانے کے لئے کوشاں ہیں۔ انرجی کیٹالسٹ سکیم کے تحت 750اداروں کے 250منصوبوں کے لئے 100ملین پائونڈ فراہم کئے جا چکے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کا شعبہ سب سے زیادہ ہمیں موبائل فون اور انٹرنیٹ خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں میں مستعمل دکھائی دیتا ہے۔ اسی سے روبوٹکس ٹیکنالوجی نکلی ہے۔ روبوٹ نے عشروں سے انسان کو اپنے مستقبل کے ساتھی کے طور پر اسیر بنا رکھا ہے۔ روبوٹ سپاہی، باڈی گارڈ، صنعتی کارکن، کسان اور ٹیچر بن رہا ہے۔ بہت سے لوگ صوفیہ روبوٹ کو دیکھ کر اپنی مشینی بیوی لانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ روبوٹ مینو فیکچرنگ، لاجسٹکس اور ہیلتھ کیئر کے شعبے میں خدمات انجام دینے لگے ہیں۔

مندرجہ بالا معلومات سے آپ کچھ دیر کے لئے اپنے ماحول کو فراموش کر چکے ہوں گے، واپس آئیے اور جائزہ لیں کہ گرین ٹیکنالوجی، صاف پانی، ماحولیاتی بہتری، روبوٹکس، بائیو گیس، سپیس ٹیکنالوجی اور ایگری لیب پر ہماری حکومتوں نے کیا کام کیا۔ جمہوریت کا ایک مطلب جمہور کے مستقبل کو محفوظ اور صحت مند بنانا ہوتا ہے۔ جن جماعتوں نے آج تک ان معاملات پر بات تک نہیں کی، ان کے پیدائشی رہنمائوں نے ان امور میں دلچسپی کا اظہار تک نہیں کیا، وہ مستقبل میں ہماری قیادت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گویا کہ بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں ہانک لے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ بیدار لوگوں کا اٹھنا چاہئے، ہنر مندوں اور اپنے زور بازو سے دنیا بدلنے کا عزم رکھنے والوں کا۔ ٹیکنالوجی کو کاروبار بنانے والے سامنے آنے چاہئیں۔ وہ لوگ ابھرنے ضروری ہیں جو نظریات کے نام پر بالائی طبقات کی زنجیریں توڑ دیں۔ دنیا کتنے بڑے بڑے خواب دیکھ رہی ہے اور ہم ٹاون شپ سے بھاٹی چوک جانے والی بس کی محرومی کا ماتم کر رہے ہیں، سڑکوں پر گندگی بھری پڑی ہے، کھیت پیداوار سکڑ رہی ہے، دودھ میں زہر کی ملاوٹ زیادہ ہو گئی ہے، بچے اور خواتین غیر محفوظ ہو تے جا رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری کریں، اپنی دنیا بدلیں۔