سٹاک ایکسچینج اور بلوچستان میں بظاہر کوئی ربط نہیں، کسی سیاسی جماعت کی بلوچستان میں حصہ داری بڑھ جائے تو اس کے نرخ بڑھ جاتے ہیں، اس طرح سٹاک مارکیٹ اور بلوچستان کے مابین ایک علامتی ربط پیپلزپارٹی نے پیدا کرلیا ہے۔
پیپلزپارٹی پر فکری جمود طاری ہے لیکن پارٹی کی وفاقی حیثیت ماضی کا قصہ ہونے کے باوجود آج بھی کئی ضرورت مندوں کے کام آ جاتی ہے۔ یہ بھی درست کہ پیپلز پارٹی بوڑھوں کی جماعت بن کے رہ گئی ہے، خاص طور پر سندھ سے باہر نوجوان اس کا حصہ نہیں بن رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی نوازشریف کے حامی تصور ہوتے تھے۔ جنرل عبدالقادر نے عملی سیاست کا آغاز نوازشریف کے کہنے پر کیا۔ سینیٹر رہے، وفاقی وزیر رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعد بلوچستان میں مسلم لیگ ن کو ایک وفاقی جماعت کے طور پر متعارف کرانے میں عبدالقادر بلوچ کا کردار نمایاں رہا۔ مسلم لیگ ن کو ان کی شکل میں ایسا رابطہ کار مل گیا تھا جو بلوچ سردار نہ تھا۔ بلوچستان کی حساسیت کو ریاستی مفادات کی روشنی میں جانتا تھا اور جو ذرائع ابلاغ پر اپنی بردباری کے باعث معروف تھا۔
ثناء اللہ زہری سے پہلا تعارف کوئی بیس اکیس سال پہلے پارلیمنٹ لاجز میں دانیال عزیز کے فلیٹ پر ہوا۔ دانیال نے کھانے کے لیے کوئی خاص طریقے سے پکی مچھلی منگوائی تھی۔ تائو والی موچھوں اور سرخ رنگت والے ایک جوان آدمی نے اپنا پنجہ مچھلی کے گوشت میں اتار دیا اور جس قدر گوشت اس گرفت میں آیا اسے اپنی پلیٹ میں منتقل کردیا۔ ہم چانے والی اس مچھلی کو کاٹنے کے لیے چھری ڈھونڈ رہے تھے۔ دانیال عزیز نے تعارف کرایا کہ یہ سینیٹر ثناء اللہ زہری ہیں، زندہ دل اور یارباش۔ خیر اس کے بعد بوجوہ دانیال کی محفلوں میں شامل ہوا نہ پھر کبھی ثناء اللہ زہری سے ملاقات ہوئی۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد زہری مسلم لیگ ن کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ نوازشریف بلوچستان کے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا چاہتے تھے۔ محمود اچکزئی کی جماعت نے مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد کیا۔ فیصلہ ہوا کہ دونوں جماعتیں نصف مدت کے لیے اپنا اپنا وزیراعلیٰ لائیں گئی۔ پہلی باری ڈاکٹر عبدالمالک کی آئی۔ دوسرے ڈھائی سال کی مدت ثناء اللہ زہری نے پوری کی۔
سیاست ادب و ثقافت کی دنیا نہیں جہاں کسی کے رخصت ہونے پر اس کا خلا ہمیشہ رہ جاتا ہے۔ سیاست میں خلا ہمیشہ بھرا رہتا ہے، ہاں ساکھ کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ ثناء اللہ زہری اور جنرل عبدالقادر بلوچ مسلم لیگ ن کو چھوڑ گئے، یہ دونوں وفاق کی سیاست کرتے ہیں، بلوچستان کو قومی دھارے میں رکھنے کے لیے کردار ادا کرتے رہے۔ بلوچستان میں گزشتہ سال پی ڈی ایم نے جب کوئٹہ میں جلسہ کیا تو مریم نواز پوری طرح محمود اچکزئی کی فکری گرفت میں تھیں۔ محمود چاکزئی نے سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے متعلق مریم نواز کے منہ سے مرضی کی باتیں نکلوا ئیں۔ مرضی کی باتیں اور جملے سن کر کچھ لوگ تو خوش ہوگئے ساتھ ہی عبدالقادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری کو اس شدت سے نظر انداز کیا گیا کہ دونوں سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو گئے۔ دونوں نے نوازشریف، شہبازشریف اور شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کر کے اپنی شکایات پیش کیں لیکن سب مریم کے بیانئے کے سامنے بے بس نظرآئے۔ معاملہ ان دونوں کا نہیں، ان کے ساتھ بہت سے دوسرے مقامی عہدیدار اور کارکن بھی ہیں۔ یہ لوگ پی ٹی آئی میں اس وجہ سے نہیں گئے کہ عمران خان خوش آمدید تو کہیں گے لیکن روائتی انداز میں عزت دینے کا سلیقہ ان کے پاس بھی نہیں، انگریز کہہ گئے ہیں کہ بلوچ کو عزت دو تو یہ ہرکام کرتے ہیں۔ آصف علی زرداری خود بلوچ ہیں، انہیں بلوچ روایات کا علم ہے اس لیے مسلم لیگ ن چھوڑنے والوں کے اعزاز میں تقریب منعقد کر کے یہ لوازمات پورے کئے گئے۔
دو اہم رہنمائوں اور ان کے ساتھ متعدد پارٹی عہدیداروں کے چلے جانے کے بعد مسلم لیگ ن کی بلوچستان میں تنہائی بڑھ گئی ہے۔ یہ تنہائی محمود اچکزئی اور ان کی جماعت کے لیے ایک فائدے کا موقع بنی ہے۔ مسلم لیگ ن آئندہ محرومیوں کے شکار اس صوبے میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے اچکزئی پر زیادہ انحصار کرے گی اور اس انحصار کی مالی و فکری قیمت ادا کرے گی۔ بلوچستان الیکٹ ایبلز کا صوبہ ہے۔ یہاں نسلی اور قبائلی بنیاد پر ووٹ ملتا ہے۔ پارلیمنٹ کی نمائندگی کی بنیاد حلقہ ہوتا ہے۔ قبائلی سردار جانتے ہیں کہ انہیں صرف حلقہ قابو میں رکھنے سے تمام فوائد مل جائیں گے لیکن ریاست منتخب نمائندوں کی اہم امور میں شراکت داری چاہتی ہے۔ بلوچستان کا سمئلہ یہ ہے کہ یہاں سے مسلم لیگ ن، پپپلزپارٹی، مذہبی و قوم پرست جماعتوں نے ریاست کے ساتھ شراکت داری کرنے والی قیادت ابھرنے نہیں دی۔ تحریک انصاب بھی ایسا کوئی ہیرا تلاش نہ کر پائی اور بلوچستان عوامی پارٹی پر تکیہ کرنا پڑا۔
بلوچستان ایک شطرنج کی بساط بھی ہے۔ مہرے وہی ہیں۔ وہی بادشاہ، ملکہ، وزیر، سوار، پیادہ۔ نئے انتخابات قریب آتے ہی تمام جماعتیں اس بساط پر جھپٹتی ہیں۔ جیتنے والے زیادہ مہرے جس کے پاس آ جائیں اسے گویا کامیابی کی امید ہو جاتی ہے۔ بلوچستان سے جیتنے والی جماعت وفاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہاں مولانا فضل الرحمن یا اچکزئی کی حکومت ہوتی تو وہ بھی تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کے ساتھ تعلق کار بہتر رکھنے کی کوشش کرتے۔ ان حالات میں پیپلزپارٹی کو فائدہ ہوا ہے۔ مسلم لیگ ن کو سیاست نہیں صرف نوازشریف اور مریم درکار ہیں لہٰذا وہ نفع نقصان کے اس چکر میں پڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔