بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کرتے سماج میں تبدیل ہو رہا ہے۔ پچھلے سال بنگلہ دیش نے کوریا کو 12انڈسٹریل روبوٹ برآمد کئے۔ بنگلہ دیش کے تیار کئے گئے چار بحری جہاز بھارت خرید چکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل بھارت کی مشہور کمپنی ریلائنس نے بہت بڑی تعداد میں بنگلہ دیش سے ریفریجریٹر درآمد کئے۔ بنگلہ دیش کے پاس 6لاکھ ایسے تربیت یافتہ افراد ہیں جو آئی ٹی کے شعبے میں فری لانس خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ دھوتی بنیان میں ملبوس جو بنگالی ہماری یادداشتوں میں محفوظ ہے اس نے سوٹ پہن لیا ہے، ریسٹورنٹس اور جم بن رہے ہیں، موسیقی اور رقص کا جنون تو پہلے سے تھا اب کرکٹ کا بخار بھی چڑھتا ہے۔ بنگلہ دیش بدل رہا ہے اور لوگ نئی ٹیکنالوجی اور اختراعات کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔
بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر کے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک 48فیصد آبادی شہروں اور بڑے قصبوں میں بس چکی ہو گی۔ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی نوجوان آبادی بڑھ رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں 11کروڑ افراد انٹرنیٹ کی سہولیات استعمال کر رہے ہیں۔ غربت اور افلاس کی وجہ سے بدنام ملک میں 3کروڑ کی آبادی ایسی مڈل کلاس مارکیٹ بن چکی ہے جو بہت سی چیزیں خریدنے کی سکت رکھتی ہے۔ خطے کے دوسرے ممالک سے جب سرمایہ کار بنگلہ دیش آنے لگے تو ان ممالک میں بے شمار خدشات کا اظہار بھی کیا گیا لیکن بنگلہ دیش نے چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کرنے کا ہنر جان لیا ہے۔ 2019ء کے دوران بنگلہ دیش کی شرح نمو 8.1فیصد رہی جو خطے میں سب سے بلند تھی۔ فی کس آمدنی 1902 ڈالر سالانہ سے بڑھ چکی ہے۔
بنگلہ دیش میں خشک اراضی کم ہونے کی وجہ سے زراعت میں بہت زیادہ پیداوار کی توقع نہیں تھی لیکن خوراک میں خودکفالت کا ہدف حاصل کر لیا گیا۔ اس وقت بنگلہ دیش چاول پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں سے چوتھے نمبر پر آ گیا ہے، پٹ سن کی پیداوار کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک، آم کی پیداوار کے اعتبار سے چوتھا بڑا ملک، سبزیاں اگانے کے حجم کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک اور مقامی سطح پر ماہی پروری کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے۔ بنگلہ دیشی سائنسدان اہم فصلوں اور پھلوں کی پیداوار بڑھانے کے لئے ان کے جینز پر تحقیق کر رہے ہیں۔ پورے
پاکستان میں 20سے زاید سپیشل اکنامک زون نہیں ہوں گے۔ بنگلہ دیش 100نئے خصوصی اکنامک زون قائم کر رہا ہے، ان اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کے لئے ایک ہی جگہ سے تمام معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔
بنگلہ دیش اس قدر حیران کن ترقی کیسے کر رہا ہے۔ میرے ہم نام سکول ٹٰیچر اشرف شریف کا تعلق راج شاہی ضلع سے ہے۔ وہ چار پانچ برسوں سے سوشل میڈیا کے توسط سے رابطے میں ہیں، ان کی بیگم اردو بول سکتی ہیں، بیٹی آستھا اسرفی بھی رومن الفاظ میں اردو جانتی ہے۔ اشرف سے میں نے پوچھا کہ بنگلہ دیشی سماج کی کیمیائی ہیت میں کیا تبدیلی واقع ہوئی جو ملک ترقی کی طرف دوڑنے لگا۔ بولے:ہمارے لوگ اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں، ہماری حکومت قابل لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور گورننس کو بہتر بنایا جا رہا ہے، سماج میں میکرو اکنامکس کی بنیادیں مضبوط ہو رہی ہیں، دنیا ہمیں ترقی کے آرزو مند، محنتی اور امن پسند ملک کے طور پر اہمیت دے رہی ہے۔
حالیہ برس مارچ میں روس اور بنگلہ دیش کے مابین ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کا معاہدہ ہوا۔ بنگلہ دیش کے علاقے روپ پور میں روس دو ایٹمی بجلی گھر لگا رہا ہے۔ اس منصوبے پر دونوں ملکوں کے درمیان 2011ء میں ایک معاہدہ ہوا تھا۔ تازہ معاہدہ میں ایندھن کی فراہمی، پرزہ جات، مرمت، دیکھ بھال اور عملے کو ضروری تربیت کا کام بھی روس کی سرکاری کمپنی کو دیدیا گیا ہے۔ دونوں پاور یونٹ مجموعی طور پر 2ہزار میگاواٹ پیدا کریں گے۔ چین کی سرمیہ کاری الگ اہمیت رکھتی ہے۔
دس سال قبل بنگلہ دیشی فوج کی کاروباری سرگرمیوں پر ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی، اس رپورٹ کے مطابق برسوں تک سیاسی عمل میں شریک رہنے کے بعد فوج نے کاروباری سرگرمیاں بھی بڑھا دیں۔ بنگلہ دیشی فوج نے آرمی ویلفیئر ٹرسٹ قائم کیا۔ ڈھاکا کا مشہور فائیو سٹار ہوٹل ریڈسن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کی ملکیت ہے۔ یہ فوجی رقبے پر تعمیر ہوا۔ اے ڈبلیو ٹی نے چٹا گانگ میں بھی ایک فائیو سٹار ہوٹل بنایا۔ مڈل کلاس کی بینکنگ ضروریات پوری کرنے کے لئے فوج نے ٹرسٹ بینک شروع کیا۔ اس بینک کو اس وقت کئی الزامات کا سامنا کرنا پڑا جب سابق آرمی چیف جنرل معین یو احمد نے ضابطے میں مقرر کردہ حجم سے کئی گنا بڑی رقم بغیر قرض حاصل کی۔ جس وقت رپورٹ سامنے آئی تھی یعنی دس سال پہلے فوج کے کاروباری اثاثوں کا تخمینہ 500ملین ڈالر تھا۔ سابق آرمی چیف بینک کے چیئرمین بھی تھے۔
سرکاری سکول میں بطور استاد کام کرنے والے اشرف مجھے بتا رہے تھے کہ اگر ملک کے دیہی علاقوں میں آپ کو کوئی آئس کریم دستیاب ہو گی تو وہ سینا کلیاں سنگھٹا کی تیار کردہ ہو گی جو فوج کا ذیلی ادارہ ہے۔
بیگم خالدہ ضیاء کے دور میں لوگوں کی سوچ بدلنے لگی تھی۔ حسینہ واجد نے اس بدلتی سوچ کو انتظامی فیصلوں کے ذریعے مضبوط بنایا۔ فوج کی کاروباری سرگرمیوں کو محدود کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ایسا اس لئے بھی ضروری سمجھا جا رہا ہے تاکہ مقامی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کے لئے مساوی مواقع فراہم کئے جا سکیں۔