کراچی کی سڑکوں پر پانی باولا پھر رہا ہے، گھروں، کمروں، گلیوں، بازاروں، سڑکوں اور چوراہوں پر اگر کسی کا راج ہے تو پانی کا۔ سامان اٹھا لے جا رہا ہے، گاڑیاں مالکان کی نظروں کے سامنے یہ منہ زور بہا کر لے جاتا ہے۔ چھتیں اور دیواریں اس کے سامنے ہار گئیں۔ نالے اور ندیوں کی ہمت جواب دے گئی، پانی کے سامنے سب تاج بے توقیر، سب تخت خس و خاشاک۔ لاہور کی بارشیں ہمیشہ دلفریب ہوتی ہیں، درخت ہر یاول کی شراب سے چھلک رہے ہوتے ہیں، جمعرات کو فیروز پور روڈ کیساتھ دو ڈھائی کلو میٹر پر بنے پارک کا نظارہ کیا۔ وہاں سے نہر پر آیا۔ نہر کناروں تک بھری ہوئی تھی۔ دونوں طرف پاپلر اور ولو کے درخت ہرا جادو کئے ہوئے ہیں، مال روڈ پر گرین بیلٹ میں للی کے پودے بھرے ہیں، درمیان میں پیپل اور السٹونیا کے درخت ہیں جن کے تنوں سے بیلٹیں لپٹی ہوئی ہیں۔ ہوا چلتی ہے تو پتے تالیاں بجاتے ہیں۔ پانی برستا ہے تو سب کیلئے رحمت۔
ایک ہی ملک کے دو بڑے شہروں میں بارش کا رنگ الگ الگ کیوں؟ ایک کے لئے زحمت دوسرے کے لئے رحمت۔ یہ ایک فرق ہے، مزاج کا، رہن سہن کا اور انتظامی و سیاسی شعور کا۔ کراچی ایک غریب پرور شہر ہے۔ دوسرے علاقوں سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور یہاں بس جاتے ہیں، گھر خریدنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اس لئے جہاں زمین ملی جھونپڑی بنا لی۔ دس بیس اپنے جیسے اور بھی پاس بسا لئے۔ ایک بستی بس گئی۔ پینے کا پانی، سیوریج، بجلی، گیس جیسی کوئی سہولت نہیں۔ ایسی بستیاں کچھ لوگوں کے لئے کاروباری منڈی ہوتی ہیں۔ وہ جسے ٹینکر مافیا کہا جاتا ہے، سب سے پہلے وہ آتے ہیں۔ لوگوں کو گھروں پر پانی پہنچاتے ہیں۔ پھر بجلی والے آ جاتے ہیں، قریب کے کسی میٹر سے تار لے کر ساری بستی کو کنکشن دیدیا جاتا ہے، میٹر والے کی چاندی ہو جاتی ہے مگر بجلی محکمہ کے اہلکار اس سے بھی زیادہ جیب بھرتے ہیں۔ کراچی کا بہت بڑا حصہ ایسے ہی آباد ہوا۔ یہ بستیاں جب سینکڑوں اور ہزاروں جھونپڑیوں پر محیط ہو جاتی ہیں تو سیاستدان رخ کرتے ہیں۔ بنیادی سہولتوں کی فراہمی، مالکانہ حقوق اور نوکریوں کے وعدے کر کے ووٹ لئے جاتے ہیں۔ یوں ان بستیوں کے مکینوں کا ریاست اور اس کی انتظامی صلاحیت سے کبھی سامنا نہیں ہو پاتا۔ وہ واٹر ٹینکر مافیا بجلی مافیا اور سیاسی مافیا کے علاوہ کراچی میں کسی سے واقف ہی نہیں۔ یہ مافیاز ان بستیوں سے اتنا کما چکے ہیں کہ اب متوسط طبقے کی آبادیوں کا رخ کر لیا ہے۔ ایک بڑا شہر ہونے اور حکومتوں کی عدم توجہی کا شکار رہنے کے باعث کراچی کے مسائل سنگین ہو چکے ہیں۔ مافیاز کے لئے یہ مسائل سازگار ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ جو پوش علاقے ہیں وہ بھی ضروری ٹاون پلاننگ سے محروم۔
کراچی ہی کیا اب پنجاب کے سرائیکی بولی والے بعض علاقے بھی شکایت کرتے ہیں کہ ان کو وسائل سے محروم رکھا گیا اور لاہور پر وسائل خرچ ہوئے۔ یاد رکھیے وسائل انسانی آبادی پر خرچ ہوتے ہیں زمینوں پر نہیں، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے وسیع و عریض علاقے سہولیات سے محروم دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں تین تین سو کلو میٹر تک آبادی نہیں، وسائل کہاں خرچ ہوں۔ لاہور پچھلے ڈیڑھ ہزارسال سے مسلسل خطے کا اہم سیاسی اور ثقافتی مرکز چلا آ رہا ہے۔ خوش قسمتی سے آب و ہوا، زمین اور لوگوں کا مزاج شجر دوست ہے۔ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی درخت ہے۔ چھوٹے گھروں میں لوگ ان ڈور پودے رکھ کر شوق پورا کر لیتے ہیں۔ دیہات سے نقل مکانی کرنے والوں کی یلغار لاہور پر بھی ہوئی لیکن یہاں چائنہ کٹنگ جیسی شعبدہ بازی کو کبھی سیاسی یا حکومتی سرپرستی حاصل نہ ہو سکی۔ زمین پر قبضہ کرنے والے گروہ سیاستدانوں سے میل ملاقات رکھتے ہیں لیکن سیاستدان عوامی سطح پر ان سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ لاہور شہر کو ہر چند کلو میٹر کے بعد ایک بڑی ڈرین میسر ہے۔ قدیم لاہور کے گرد سرکلر روڈ کے ساتھ ساتھ ایک گندا نالہ تعمیر کیا گیا۔ لاہور دروازوں سے باہر نکلا تو ڈسٹرکٹ جیل کے قریب سے ایک بڑا نالہ گزارا گیا۔ پانچ چھ کلو آگے ماڈل ٹائون اور گارڈن ٹائون کی آبادیاں بنیں، گلبرگ بسا تو ایک اور نالہ شہر کے جنوبی حصے کی آبادی کو میسر آ گیا۔ اس نالے میں والٹن، کوٹ لکھپت اور ٹائون شپ کی آبادیوں کا سیوریج جاتا ہے۔ ان علاقوں میں بعض کچی بستیاں ہیں وہ بھی اس نالے سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہ نالہ انتہائی گنجان آبادیوں سے گزرتا ہے لہٰذا اسکے کناروں پر عشروں پہلے بے گھر افراد نے گھر بنا لئے جو اب خوبصورت مکانات میں بدل چکے ہیں۔ کچی آبادیوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت پائپ لائنیں بچھا لیتے ہیں۔ گلیاں کھلی رکھتے ہیں۔ ہینڈ پمپ سے گزارہ کرتے ہیں یا پھر ہمسائے سے بجلی مل جائے تو موٹر لگا لیتے ہیں۔ غیر قانونی کام ہوتے ہیں لیکن بے حد و حساب نہیں۔ آبادی کا دباو چونکہ لاہور کے جنوبی حصے کی طرف ہے اس لئے جلد ہی نئی آبادیوں کو ہڈیارہ ڈرین کی شکل میں ایک نئی سہولت مل گئی، اہل کراچی حیران ہوں گے کہ لاہور کی آخری حد کے قریب بھی برسوں پہلے ایک بڑی ڈرین بنا دی گئی جہاں ابھی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔
جنوبی پنجاب ہو یا بلوچستان وہاں کے لوگ باغات، نہروں، گھروں اور گلیوں میں شجر کاری نہیں کرتے کچھ جگہ درخت لگتے ہونگے لیکن اکثر مقام سوکھے کا تاثر دیتے ہیں۔ کراچی میں حالیہ بارشیں حکومتی کارکردگی کے آئینے میں دیکھنا زیادتی ہو گی۔ طوفانی بارشوں پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ 1996-97ء میں لاہور میں شدید بارشوں سے تہہ خانے بھر گئے، مال خراب ہو گیا، فرنیچر تباہ ہو گیا۔ یہ حکومتی کوتاہی نہ تھی، کراچی شہر نے بیروزگاروں کو روزگار دیا ہے بے گھروں کو گھر دئیے، مہاجروں کو اپنا شہر دیا۔ اب یہ ان سب کا فرض ہے کہ اس شہر کو محبت دیں۔ ہم لاہور والے اپنے شہر سے محبت کا اظہار اس طرح بھی کرتے ہیں کہ اپنے سیاسی نمائندوں کو شہر تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ کراچی مافیاز کے قبضے میں ہے، یہاں شہر دوست افراد کو آگے لانے کی ضرورت ہے جو شہر کے مسائل حل کرنے میں رکاوٹ بنے اس کو ووٹ دیا جائے نہ شہر کی کسی تقریب میں اسے پذیرائی بخشی جائے۔