میانمار (برما) کی رہنما آنگ سانگ سوچی اسی لمحہ کے سامنے آ کھڑی ہوئیں جو 1988ء میں اکثریتی نشستیں حاصل کرنے والی بے نظیر بھٹو کے لئے آزمائش بن کر اترا تھا۔ بے نظیر بھٹو کو جیت کے بعد اقتدار منتقل نہیں کیا جا رہا تھا۔
جنرل اسلم بیگ اور صدر غلام اسحق خان نے چند شرائط رکھی تھیں، پیپلز پارٹی کی سربراہ سے کہا گیا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کارروائی میں شریک فوجی افسران کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کریں گی، خارجہ پالیسی ان کے اختیار میں نہیں ہو گی اور تنازع کشمیر پر انہیں جو پالیسی دی جائے وہ اس کی پابند ہوں گی۔ بے نظیر بھٹو نے طویل مشاورت کے بعد جمہوریت کے اس جگنو پر اکتفا کرتے ہوئے اقتدار قبول کر لیا۔
آنگ سانگ سوچی غیر ملکی شخص سے شادی اور بچوں کی غیر ملکی شہریت کی وجہ سے مدت تک میانمار کی سیاست کے لئے نااہل رہیں۔ 2011ء تک میانمار پر فوج کی حکومت تھی۔ مغربی دنیا کا وہ دبائو جو پاکستان جیسے ملکوں کو اپنے فیصلے فوری طور پر بدلنے پر مجبور کر دیتا ہے میانمار اس سے بڑی حد تک آزاد ہے۔
مغربی ممالک خود بھی اس کے خلاف دبائو کو بروئے کار نہیں لاتے، ہاں وہاں کی غیر سرکاری تنظیمیں اور انسانی حقوق کے گروپ میانمار میں فوج کے کنٹرول، مسلمانوں کے قتل عام، حکومت کی بے حسی اور جمہوری آزادیوں کی ناگفتہ بہ صورت حال پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
نومبر 2020ء کو میانمار میں عام انتخابات ہوئے۔ آن سانگ سوچی کی حامی این ایل ڈی کو حکومت بنانے کے لئے خاطر خواہ نشستیں مل گئیں تاہم فوج نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، پیر کے روز نومنتخب اراکین کا پہلا اجلاس ہو رہا تھا۔ فوج اس اجلاس کا التوا چاہتی تھی۔ فوج نے سوچی اور صدر ون مائنٹ کو حراست میں لے لیا ہے۔ ملک کے اہم شہروں کے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ رابطے منقطع کر دیے گئے ہیں۔ سرکاری ٹی وی تکنیکی خرابی کا بتا کر نشریات بند کر چکا ہے۔ امریکہ کی نئی انتظامیہ نے میانمار کے جمہوری رہنمائوں کے خلاف فوج کی کارروائی کی مذمت کی ہے، آسٹریلیا کی جانب سے بھی ایسا مذمتی بیان سامنے آیا ہے تاہم دنیا کا بڑا حصہ اس معاملے پر رائے دینے سے گریزاں ہے۔
مسلمانوں کے قتل عام، خواتین کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے گھر نذر آتش کرنے کے واقعات روکنے میں آنگ سانگ سوچی پوری طرح ناکام رہیں۔ بین الاقوامی میڈیا نے بار بار ان سے اس بارے میں سوال کیا، ان کی توجہ اس ظلم کی طرف مبذول کرائی لیکن سوچی کوئی کردار ادا نہ کر سکیں۔ اس سے ان کی بطور لیڈر ساکھ بری طرح مجروح ہوئی۔ اس مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے آنگ سانگ سوچی تشدد پسند بدھ اکثریتی آبادی میں اب بھی مقبول سمجھی جاتی ہیں لیکن روہنگیا مسلمانوں پر ظلم نے ان کے لئے آواز اٹھانے والے حلقوں کو سوچی سے مایوس کر دیا ہے۔
ستمبر 2017کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے آنگ سانگ سوچی کو انتباہ کیا تھا کہ ان کے حامی فوجی دستوں اور سویلین گروپوں کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کو قتل کرنے کی کارروائی روکی نہ گئی تو میانمار کے لئے یہ سانحہ خوفناک رخ اختیار کر لے گا۔ اقوام متحدہ اور دنیا بھر سے شدید تنقید کے بعد آنگ سانگ سوچی نے اقوام متحدہ کے متعدد سربراہ اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق رخائن ہجرت کرنے والے چار لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لے رکھی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو میانمار کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں میں سوچی کے بعض قریبی لوگ شامل رہے ہیں۔
سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی2015ء میں برسر اقتدار آئی۔ انہوں نے آئین کو قبول کیا جس کے تحت فوج کو پارلیمنٹ میں 25فیصد نشستیں دی گئی ہیں۔ این ایل ڈی نے روہنگیا معاملے پر مخالفت کے باوجود 80فیصد ووٹ لئے ہیں۔ فوج اور اپوزیشن الزام لگا رہی ہیں کہ ووٹر لسٹ میں دھاندلی کی گئی ہے۔ اپوزیشن نے الیکشن کمیشن پر الزام لگایا ہے کہ وہ انتخابات میں بے ضابطگی روکنے میں ناکام رہا ہے، میانمار میں کسی جماعت کو حکومت بنانے کے لئے 75فیصد نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
فوج کی 25فیصد نشستوں کے باعث یہ ہدف حاصل کرنا کسی جماعت کے لئے ممکن نہیں۔ پھر یہ بھی کہ فوج کے پاس داخلہ، دفاع اور سرحدی امور کی وزارتیں ہوتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہوا کہ این ایل ڈی کے پاس جب آئین میں ترمیم کی صلاحیت تھی تو اس نے ان شقوں کو تبدیل کیوں نہ کیا جو بار بار فوج کو طاقتور بناتی ہیں۔
میانمار خطے میں چینی اثرورسوخ کا مرکز بن رہا ہے۔ چین کے توسط سے پاکستان کئی آلات میانمار کو برآمد کر رہا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا اور ان کے چند دوسرے اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ میانمار میں عبوری طور پر ایک سال کا فوجی بندوبست تمام غیر چینی سرمایہ کاروں کو یہاں سے بھگا سکتا ہے۔ اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتیں اور آنگ سانگ سوچی کے حامیوں نے بیک وقت اپنے اپنے مطالبات کے حق میں جلوس نکالنے شروع کر دیے تو ملک ایک نئے بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی جمہوریت اس لحاظ سے بہتر ہے کہ یہاں جب بھی بحران پیدا ہوتا ہے سیاستدان فوج کو مشورہ دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کسی زمانے میں آنگ سانگ سوچی کو مثالی جمہوری قیادت سمجھا کرتی تھیں۔ تاریخ نے گواہی دی ہے کہ سوچی کثیر الجہتی جمہوریت کے لیے موزوں مزاج نہیں، وہ بدھ انتہا پسندوں کی قیادت کر سکتی ہیں برمی فوج کی نہیں۔ پاکستان اور بھارت کو بھی یہ جان لینا چاہیئے کہ انتہا پسند ملک کو متحد نہیں رکھ سکتے۔