پاکستان بھلے لوہے سے مضبوط ہو، سیاسی نظام کانچ کا ہے۔ چند ہفتے قبل پی ڈی ایم حکومت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔ وہ پی ڈی ایم جسے مشترکہ طور پر سینٹ میں اکثریت حاصل تھی اور جسے چند نشستوں کا کندھا مل جائے تو وہ مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بدل سکتا تھا۔ پی ڈی ایم کو ٹکڑے کرنے والا حکومتی وجود اب خود ہوائوں سے لرز رہا ہے۔
کسی ریاست اور سماج کو استحکام اور خوشحالی دینے کے لیے بہت سے طریقہ کار اختیار کئے جاتے ہیں۔ پاکستان کو معاشی طور پر آسودہ کرنے کے لیے عمومی فارمولا طے ہوا کہ حکومتی اخراجات کم کئے جائیں، برآمدات بڑھائی جائیں اور درآمدات میں کمی لائی جائے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی کوشش کی جائے۔ یہ فارمولا دنیا کے ہر ملک میں عناصر کی تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ آزمایا جاتا ہے۔ اس کا فائدہ کبھی سب کو ایک جیسا نہیں ملتا، افادیت کی شرح کم یا زیادہ ہو جاتی ہے۔ پاکستان نے سادگی مہم شروع کی، اب وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے چار چار گھر سرکاری خرچ پر نہیں چلتے، پھر بھی اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ درآمدات 20 ارب ڈالر تک کم ہوئیں اور برآمدات میں ایک ارب ڈالر تک کا اضافہ ہوا ہے لیکن درآمدات کی وجہ سے جو کاروبار چلتے تھے وہ ٹھپ ہو گئے۔ بیرونی سرمایہ کاری پہلے بھی ہماری مہنگی بجلی اور تیل کی وجہ سے کم ہورہی تھی اب کئی درآمدات پر پابندی، بھاری ڈیوٹی اور مہنگے ایندھن کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری 35 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔ پچھلے مالی سال میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 2.15 ارب ڈالر تھا۔ رواں مالی سال میں یہ 1.395 ارب ڈالر تک رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ ہمارے ہاں کوئی معاشی فارمولا کامیاب کیوں نہیں ہورہا۔
بظاہر ایک مضبوط حکومت، ادارے اور حکمران جماعت ایک پیج پر لیکن استحکام نہیں۔ ہارون الرشید صاحب کہا کرتے ہیں کہ استحکام اتھارٹی سے پھوٹتا ہے۔ اتھارٹی ایک ہی ہوتی ہے۔ ایک ریاست کو دو اتھارٹیاں چلائیں تو کہیں نہ کہیں ان کی سوچ اور طریقہ کار میں موجود معمولی سا اختلاف بھی انہیں ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کرے گا۔ نوازشریف کی بیماری، بیماری کی رپورٹس کا گورکھ دھندہ اور پھر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت ملنا ایک صفحے کو آدھا آدھا کر گیا۔ پھر حالیہ دنوں یوسف رضا گیلانی کا بطور سینیٹر انتخاب، کئی اورباتیں ہوں گی۔ معلوم نہیں مگر کہنے والے حالیہ پرتشدد مظاہروں کو بھی کسی فالٹ لائن سے جوڑ رہے ہیں۔ ان پرتشدد واقعات کا تعلق ہوسکتا ہے نون لیگ کی ایک حکمت عملی سے ہو لیکن جس طرح وزیراعظم اس صورت حال میں نون لیگ کا ہاتھ بتا رہے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ ممکن ہے وزیراعظم صرف یہی کہہ سکتے ہوں جو وہ کہہ رہے ہیں۔ تو کیا سمجھا جائے کہ مریم نواز کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کہیں سے ہورہی ہے اور بظاہر ایک بالکل مختلف صورتحال سے فائدہ کوئی اور اٹھانے والا ہے۔
تحریک انصاف کے حامیوں کو شکایت ہے کہ جو منتخب نہیں ہیں ان افراد کی اپنی جماعت کے دور اقتدار میں کوئی اہمیت نہیں۔ آہستہ آہستہ یہ جذبات عوام تک منتقل ہورہے ہیں۔ لوگ اس شخصیت کے گرد جمع ہوتے ہیں جس کے پاس انہیں دینے کو کچھ ہوتا ہے، تھانے کچہری اور پٹوار کے مسائل میں سیاسی مداخلت بند کرنے کے نام پر اپنی گراس روٹ قیادت کو اپاہج بنا دیا گیا اور سرکاری اہلکاروں کو بے لگام۔
پارٹی اور حکومت کو الگ رکھنے کا تجربہ پاکستان میں ناکام رہا ہے۔ کارکن کی فعالیت جماعت کی قوت ہوتی ہے۔ وہ گلی محلے کی صفائی، سٹریٹ لائٹس، خوشی غمی، رابط کاری کے معاملات دیکھتا ہے۔ یہی کارکن دوسری جماعتوں کے سرگرم کارکنوں سے سماجی تعلق استوار رکھتا ہے، بین الجماعتی ہم آہنگی کی بنیاد یہاں سے پڑتی ہے۔ تحریک انصاف کے حامی زیادہ تر سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں، لوگوں میں عمران خان کے لیے جو مثبت جذبات تھے ان کو نچلی سطح پر تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کارآمد بنانے پر توجہ نہیں دی گئی۔ وجہ شاید یہ ہے کہ عمران خان رائج نظام میں کارکن کی فعال حیثیت کوکرپشن کا ذریعہ سمجھتے ہیں جو سو فیصد درست نہیں۔ تحریک انصاف کا کارکن ہر اس موقع پر سماجی طور پر اکیلا ہو جاتا ہے جب حکومت کوئی غیر مقبول فیصلہ کرتی ہے۔ اسے پارٹی کی سب سے خطرناک فالٹ لائن کہا جا سکتا ہے۔
عمران خان نے تحریک انصاف کو جدید معاشی یا عالمی نظریات پر استوار نہیں کیا۔ ان کا سب سے مقبول نعرہ کرپشن کا خاتمہ تھا، عملی طور پر دنیا باہمی مفادات پر تعلق استوار کرتی ہے، ریاستوں کے درمیان کرپشن کا انسداد باہمی تعلق کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔ تین برس کے اقتدار میں طاقتور افسر شاہی اور حکمران اشرافیہ نے ثابت کر دیا کہ یہاں قانونی اور آئینی دائرے میں رہ کر کسی کا احتساب نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تحریک انصاف تسلیم کرے نہ کرے ایک پسپائی ہے۔ پارٹی میں ہر قسم کے خیالات والے لوگ موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ایک خرابی کو دور کرنے کا فیصلہ کیا تو جہانگیر ترین اراکین کی بڑی تعداد کو ساتھ ملا کر کھڑے ہو گئے۔ ٹی ایل پی پر پابندی لگائی اور پولیس کارروائی ہوئی تو علی محمد اور ان کے ساتھ کئی دوسرے اراکین نے اپنی مختلف رائے دی۔ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کئی ناراض گروپ بھی موقع کی تلاش میں ہیں۔ عجیب صورت ابھری ہے کہ ایک جماعت کو عوام کی حمایت حاصل ہے لیکن وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے گروپوں، اداروں، افسر شاہی اور اپوزیشن کے ساتھ ایسے تصادم میں الجھا دی گئی جس کا کوئی نتیجہ نہیں برآمد ہو سکتا۔ تو کیا سمجھا جائے عوام کو یہ باور کرلینا چاہیے کہ کوئی سیاسی اور جمہوری قوت ان کے حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتی۔ کہانی ختم تو نہیں ہو گئی؟ بقول ڈاکٹر فرتاش سید:
داستاں ختم ہوئی، کیا میرا کردار اٹھا
سو دوبارہ میں کہانی کے لیے آیا ہوں