Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Dengue Aur Pti Ki Karkardagi

Dengue Aur Pti Ki Karkardagi

مناہل کچھ دن سے بخار میں تھی۔ ڈاکٹر کی ہدایت پر ٹیسٹ کرایا۔ ڈینگی کی تشخیص ہوئی، طبیعت زیادہ خراب نہیں، بہتری آ رہی ہے۔ ڈاکٹر احمد سلیم کا کہنا ہے کہ پپیتا، انار اور سیب وغیرہ ضرورکھلائیں لیکن بہت زیادہ نہیں۔ او آر ایس اور جوسز کا استعمال بتایا ہے۔ بچے کسی وبا کی لپیٹ میں آ جائیں تو والدین کی فکر مندی قدرتی بات ہے۔ ہم بھی فکرمند ہیں۔

چھوٹا سا گھر ہے۔ پودے رکھے ہیں۔ ڈینگی کے آغاز پر ہی گھر میں کہہ دیا تھا کہ پانی اتنا دیں کہ مٹی جذب کرلے، کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں پانی کھڑا ہو۔ واش روم، بالائی منزل، چھت، سب خشک ہوتے ہیں۔ سرشام کمروں میں مچھر مار سپرے کر دیا جاتا ہے۔ گھر میں سبھی ایسا لباس پہنتے ہیں جس میں بازو ڈھکے ہوں۔ مناہل تو ابھی سے دوپٹہ ماتھے تک رکھتی ہے۔ سونے کا لباس بھی ٹھیک ہے۔ معلوم نہیں پھر ڈینگی کیسے حملہ آور ہوگیا۔

پچھلے ڈیڑھ دو ماہ میں ڈینگی ٹیم دوبار آ چکی ہے۔ معائنہ کرنے والی خواتین پوری محنت اور دیانتداری سے گھر کے کونے کھدروں اور گملوں کا جائزہ لیتی ہیں۔ کچھ احتیاطی تدابیر بھی ہر گھر کے لوگوں کو بتاتی ہیں۔ ہماری گلی اور ساتھ والی گلی میں مجموعی طور پر کوئی پندرہ بیس گھر ہوں گے پھر بھی ان ڈیڑھ درجن گھروں میں کم از کم اتنے ہی لوگ ڈینگی کا شکار ہیں۔ یہ نسبتاً صاف اور کھلا علاقہ ہے۔ گرین ٹائون اور ٹائون شپ کے کمرشل علاقوں کے قریب واقع بلاک بری حالت میں ہیں۔ پورے علاقے کی آبادی کوئی سات لاکھ ہے۔ لگ بھگ تین لاکھ تو صرف ووٹر ہیں۔ اتنی بڑی آبادی کو فیروز پور روڈ پر واقع جنرل ہسپتال یا پھر جناح ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ راستے میں درجنوں مہنگے پرائیویٹ ہسپتال ہیں، کوئی خرچ برداشت کرسکتا ہو تو وہاں چلا جاتا ہے۔

ٹائون شپ اور گرین ٹائون کی منصوبہ بندی کینیڈا نے کی تھی۔ ایوب دور میں یہ سکیم بے گھر افراد کے لیے بنائی گئی۔ بھٹو صاحب نے لاہور سے کچی آبادیاں ختم کر کے لوگوں کو یہاں لا بسایا۔ یہاں سکول، کالج اور یونیورسٹی ہے۔ ووکیشنل تعلیم کے کئی سرکاری ادارے ہیں۔ تین چار بڑے گرائونڈ باقی ہیں جہاں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال وغیرہ کے میچ ہوتے ہیں۔ بہت سے بس سٹاپ، پارک اور کمرشل ایریا پر سیاسی کارکن قبضہ کر چکے۔ قبضہ گروپ ایل ڈی اے اہلکاروں کے ساتھ ساز باز کر کے کاغذات بنا لیتے ہیں۔ سکیم میں کم از کم چار ہسپتال رکھے گئے تھے۔ ان میں سے ایک کی اراضی چودھری رحمت علی ٹرسٹ کو دی گئی جہاں ایک ٹرسٹ ہسپتال کام کر رہا ہے۔ ساتھ میڈیکل کالج ہے۔ باقی ہسپتالوں کے لیے مخصوص جگہ پر کون قابض ہوا اور وہاں کیا بنا کسی کو علم نہیں۔

شہر کی پلاننگ اور گھروں کی تعمیر کا ڈیزائن شہریوں کی صحت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ٹائون پلاننگ میں مکینوں کے پیدل چلنے پھرنے، ٹریفک حادثات کے امکانات، آلودگی سے متاثر ہونے، صحت کی سہولیات تک رسائی، ذہنی صحت اور رہائش کی سہولت حاصل کرنے کی سکت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ افسوسناک امر یہ کہ متعلقہ سرکاری اہلکار شہریوں کی ان سہولیات کو رشوت اور مراعات کے بدلے پرائیویٹ افراد اور قبضہ گروپوں کو دے دیتے ہیں۔ کسی آبادی کی سڑکیں تنگ کر کے، پارک ختم کر کے، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے لیے مختص جگہ کو کمرشل ایریا میں تبدیل کر کے مال بنا لیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ٹائون پلانر اور پبلک ہیلتھ کے ماہرین شہریوں کو صاف ستھرا اور صحت مند ماحول فراہم کرنے کے لیے مل جل کر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹائون پلاننگ والے سڑک تعمیر کرتے ہیں، گیس اور واسا والے اگلے دن توڑنے آ جاتے ہیں۔

لاہور شہر بے تحاشا آبادی کے دبائو میں ہے۔ سیاسی جماعتوں نے بھٹو کے جیالے، نواز شریف کے متوالے اور عمران خان کے ٹائیگر پیدا کئے۔ کسی نے ڈھنگ کا ایک ٹائون پلانر، صحت کے امور کا ماہر، آبادی کی سائنس کو سمجھنے والا دانشمند اور ماحولیاتی اکانومی سے واقف ماہر متعارف نہیں کرایا۔ ماہرین مستقبل میں آبادی کے پھیلائو اور اضافے کے باعث ڈینگی کے مرض کی شدت بڑھنے کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ عالمگیریت، سفر، تجارت، سوشو اکنامک امور، انسانی آبادی، وائرس اور ماحولیاتی تغیر ڈینگی مچھر کو افزائش کا موقع دے رہے ہیں۔

پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے فیلڈ ماہرین نے پچھلے تین ماہ کے دوران متعدد بار ڈینگی کے انسداد اور روک تھام کے لیے ایڈوائزری جاری کی ہیں۔ فیلڈ ماہرین کا کہنا تھا کہ رواں سیزن میں اسلام آباد اور پنجاب میں ڈینگی کے ریکارڈ کیسز سامنے آ سکتے ہیں۔ اگست ستمبر میں ڈینگی سپرے کیا جائے تو لاروا ختم ہو جاتا ہے۔ حکومت نے یہ وقت سوچ بچار اور غیر ضروری سرگرمیوں میں ضائع کردیا۔ پچھلے ایک ماہ سے اخبارات صفحہ اول پر ڈینگی کے نئے مریضوں کی تعداد اور روزانہ مرنے والوں کے اعداد و شمار شائع کر رہے ہیں۔ منگل کے روز خبر میں بتایا گیا کہ پنجاب میں 244 نئے مریض رپورٹ ہوئے جبکہ لاہور میں ایک ڈینگی مریض جاں بحق ہوا ہے۔ عملی صورت حال اس سے بری ہے۔ ہسپتالوں میں روزانہ ہزاروں افراد کی رپورٹ ڈینگی پوزیٹو آ رہی ہے۔

مناہل پہلے سے بہتر ہے۔ اسے ڈاکٹر، تازہ پھلوں کے جوس اور گھر کے صاف ماحول کی سہولت حاصل ہے۔ اللہ کرے پاکستان کی ساری مناہلوں کو والدین کی شفقت اور یہ سہولیات میسر رہیں لیکن یہ سوال تو کیا جا سکتا ہے کہ ڈینگی کو بروقت قابو میں رکھنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے؟ ابھی تک سپرے کیوں نہیں ہوئے؟ گھروں کے دیہاڑی دار کفیل جب ڈینگی میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان کی ٹانگوں اور کمرسے ابھرنے والا درد سارے کنبے کی بھوک اور اندیشوں میں ڈھل جاتا ہے۔ سابق حکومتوں کی ٹائونگ پلاننگ سے کوتاہی اور سیاسی مفادات کی خاطر صحت کی سہولیات کو پلازوں میں بدلنے کی بات تین سال پہلے کرنا ٹھیک تھی، اب صرف تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی پر بات ہو سکتی ہے جو کسی لحاظ سے تسلی بخش نہیں۔