Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Hum Kya Hain Un Parhon Ki Mandi

Hum Kya Hain Un Parhon Ki Mandi

تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار کھولنے کا آغاز ہوچکا، دفتر آتے ہوئے گورنمنٹ ٹیکنالوجی کالج رائے ونڈ روڈ کے بچوں کو دیکھ کر خوشی ہوئی، ان کی صحت و سلامتی کے لئے بے ساختہ دعا نکلی۔ دھیان تعلیمی ناکامیوں اور حکومتوں کی کوتاہی کی طرف ہو گیا۔ کچھ منصوبوں کے بارے پڑھا، کچھ کا حشر نشر ہوتے خود دیکھا۔ تعلیم بالغاں سے لے کر نئی روشنی سکول اور پھر مسجد سکول جیسی کتنی ہی سکیمیں آئیں جن کے لیے عالمی اداروں نے فنڈز فراہم کئے۔ ان تمام منصوبوں کو سابق حکومتوں نے اپنے سیاسی مقاصدکے طور پر استعمال کیا۔ سیاست میں چونکہ خدمت اور مقصدیت نہیں بلکہ مالی لوٹ کھسوٹ اہم رہی ہے اس لئے چند ہزار بیروزگاروں کو کچھ سال کے لیے روزگار دے کر اپنا ووٹ پکا کیا گیا۔ باقی پیسہ ہضم۔ ان سکیموں کے ذریعے کتنے لوگ ناخواندہ سے خواندہ ہوئے، اس کا حساب نہیں رکھا گیا، ایسے نقش باقی نہیں رکھے جاتے جو چور کے گھر تک لے جائیں۔

حکام دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں شرح خواندگی 59 فیصد ہو چکی ہے تاہم عالمی ادارے اس دعوے کو تسلیم نہیں کرتے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے دنیا کے 130 ممالک میں شرح خواندگی سے متعلق 2017ء میں ایک رپورٹ پیش کیا۔ اس رپورٹ میں پاکستان کا نچلی سطح پر نمبر 125 واں ہے۔ یہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور آمرانہ حکومتوں کی اصل کارکردگی کا ثبوت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ سے لے کر 16 سال تک کے دو کروڑ آٹھ لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے جو مستقبل میں ناخواندہ افراد کو روزگار دینے کا چیلنج پیدا کرسکتی ہے۔ ہمارا مسئلہ اتنا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہم سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے سرفہرست ہیں۔ 42 فیصد بچے کسی نہ کسی وجہ سے سکول تعلیم چھوڑ جاتے ہیں۔ سابق دور میں 2017ء سے 2018ء کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے تعلیم پر 892 ارب روپے خرچ کئے۔ یہ جی ڈی پی کا 2.3 فیصد ہے۔ اس دوران نجی شعبے نے تعلیم اور ٹیوشن پر 740 ارب خرچ کئے۔ پاکستان میں 4 لاکھ 44 ہزار 600 پرائمری سکول ٹیچر ہیں۔ 44 بچوں کے حصے میں ایک ٹیچر آتا ہے۔ حکومتوں کا سارا زور نمائشی اقدامات پر رہا جبکہ تعلیمی نظام کی بنیادی اکائی طالب علم کی مالی استعداد اور سکول چھوڑنے کی وجوہات پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں۔

پنجاب میں شہبازشریف حکومت نے اربوں روپے کے لیپ ٹاپ باہر سے منگوا کر طلباء میں تقسیم کئے۔ کچھ لوگوں نے دبی زبان میں کہا کہ اس سے کہیں کم رقم میں لیپ ٹاپ کی اپنی فیکٹری لگائی جا سکتی ہے۔ کورونا کی وبا آئی تو تعلیم کا شعبہ اس کا سامنا کرنے کے قابل نہ تھا۔ ہمارے پاس ٹیکنالوجی بیسڈ کوئی حل نہیں۔ ہم پیداواری حل کی بجائے ہر چیز مارکیٹ سے خرید رہے ہیں۔ ریاست کے وسائل خریداری پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ ایک دردمند شخصیت نے تجویز دی ہے کہ جو بچے سکول جانے کی طاقت نہیں رکھتے انہیں حکومت مخصوص پروگرام کے حامل ٹیبلٹ دے کر تعلیم کا سلسلہ شروع کرے۔ ٹیبلٹ میں قومی نصاب تعلیم موجود ہو۔ ایسے ٹیبلٹ پاکستان میں تیار ہونا ضروری ہیں تاکہ روزگار، مرمت اور ٹیکنالوجی میں خودکفالت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکے۔ اس سے اساتذہ کی کمی کا معاملہ بھی حل ہو سکتا ہے۔

تعلیم ایک پل ہے جو ہمیں جہنم جیسی زندگی سے نکال کر فردوس بریں تک لے جاتا ہے۔ ہماری حکمران اشرافیہ نے اپنے بچوں کے لیے ہوائی پل بنا لیا ہے جبکہ عام آدمی کے بچے ایک خستہ حال، قریب انہدام راستے سے گزر کر اچھی زندگی کی طرف آنا چاہتے ہیں۔ استاد محترم اظہر ندیم مرحوم کہا کرتے تھے کہ لالچ اور جھوٹ میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ دونوں میں نامیاتی رشتہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے خون پر پلتے ہیں۔ لالچی ہمیشہ جھوٹے سے مار کھاتا ہے اور اس کے فریب میں بہت کچھ سمیٹتے سمیٹتے اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتا ہے۔ ان کا کہنا درست تھا۔ ضیاء الحق کے آخری دنوں میں کراچی میں "ا نویسٹمنٹ کمپنیوں " کی بہار آ گئی۔ ان میں زیادہ تر کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کا پیسہ ڈوبا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف ایک کمپنی چوبیس ارب روپے لے گئی۔ آج کے حساب سے چوبیس کھرب ہوں گے۔ لوگوں کا رونا دھونا ختم ہوا تو پنجاب میں کوآپریٹو کمپنیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو بھاری شرح منافع کا لالچ دے کر لوگوں کا روپیہ جمع کرتیں اور لوگ غیر حقیقی شرح منافع پر خوشی خوشی روپیہ جمع کراتے۔ آخر وہی ہوا جو ایسے کاموں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں۔ لوگوں کی رقمیں ڈوب گئیں۔ فضا میں متاثرین کی آہ و بکا موجود تھی کہ فارن ایکسچینج سکینڈل آ گیا۔ پتہ چلا کہ چپکے چپکے اس میں بھی لوگوں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ ڈبل شاہ اور اس جیسے کرداروں کی بات تو تازہ معاملہ ہے۔

ایسے تمام معاملات پر سرسری نظر ڈالنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس قسم کے سبھی سکینڈلوں میں فراڈ کرنے والوں کو اس وقت کے بااختیار اور بااثر لوگوں کی سرپرستی اور تحفظ حاصل رہا۔ حکومت اگر بروقت ان لٹیروں کا نوٹس لیتی تو عوام کو ان سے بچایا جا سکتا تھا مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں کرتے؟ گھوڑا گھاس سے دوستی کر کے بھوکا ہی مرے گا۔ تعلیم کا شعبہ، ادویات اور پٹرولیم کے شعبہ جات بالواسطہ اور بلاواسطہ عوام کی جیبیں کاٹ رہے ہیں۔ انپڑھ اور پسماندہ افراد کی فصل جوئی جارہی ہے، کہتے ہیں کارخانہء قدرت میں کوئی چیز بیکار نہیں یہ ناخواندہ بھی تو کسی کام کے ہوں گے۔ جہنم کو بھی تو آباد رکھنا ہے، بریانی کی دیگیں اور قیمے والے نان بھی تو کھانے والے چاہئیں۔ ہماری تعلیمی پسماندگی کسی مارکیٹ میں بیچی جا سکتی ہے، سابق حکومتیں اس مارکیٹ سے واقف تھیں، عمران خان اس خرابی کو دور کریں، ایک پل بنا دیں جو عام گھرانوں کے بچوں کو فردوس بریں تک لے جائے۔