ایک نابینا کسی ریلوے سٹیشن کی سیڑھیوں پر بیٹھا پنجابی لوک دانش کے مظہر میاں محمد بخش کا کلام گا رہا ہے، سیف الملوک کی مخصوص لے کی جگہ نابینا نے "مرزا کی پرجوش لے اپنائی، ہیر خوانی اور سیف الملوک کی داستان نرم اور ہموار بہائو کی طرح ہیں جبکہ مرزا صاحباں کے منظوم قصے کو پڑھنے والے دم بدم تیز ہوتے جوش کو بڑھاتے ہیں، یہ قازقستان کی شاہکار منظوم داستان، مناس، جیسی توانائی سننے والوں میں بھر دیتا ہے، ایک وجد جیسی حالت۔ قریب بیٹھا ایک قلی اپنی سرخ پگڑی سمیت جب پرات بجاتے نابینا فنکار کے ساتھ آ بیٹھتا ہے تو میاں محمد بخش کا کلام، مرزا کی لے اور سرخ رنگ مل کر انقلابی ترانہ کا تاثر پیش کرتے ہیں۔ برادرم سجاد جہانیاں کی اس ویڈیو پوسٹ پرمیں نے پسندیدگی کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی عظیم بیالوجسٹ، تاریخ دان اور محقق جیرڈ ڈائمنڈ یاد آگئے۔
جیرڈ ڈائمڈ نے 1876ء میں ایک کتاب لکھی، Guns، Germs and Steel۔ جیرڈ نے ایسے سوال اٹھائے جو پاکستانی سماج میں آج بھی تشنہ جواب ہیں یا ان پر مکالمہ شروع نہ ہو سکا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ آخری برفانی دور کے بعد 13ہزار برسوں میں دنیا کے کچھ حصوں میں دھاتی اوزار استعمال کرنے والے خواندہ صنعتی معاشرے پروان چڑھے جبکہ بعض دوسرے حصوں میں ناخواندہ زرعی معاشرے وجود میں آئے۔ جیرڈ نے خواندہ اور ناخواندہ کے فرق کو لفظ شناسی کے ساتھ منسلک نہیں کیا بلکہ خواندگی سے مراد سکل یا ہنر کو بتایا ہے۔ ہنر ہر عہد میں برتر معاشی و سماجی رتبہ کی علامت رہا ہے۔ جو معاشرے صنعتی ترقی کی طرف گئے انہوں نے اس فرق کو پہلے جان لیا۔ ہم جیسے معاشرے لفظ شناسی کو خواندگی کہہ رہے ہیں اور نوجوانوں کو بیکار بنا رہے ہیں۔
جیرڈ ڈائمنڈ نے ایک سوال یہ اٹھایا کہ دولت اور طاقت کی جو تقسیم اس وقت دنیا میں ہے یہ اسی انداز میں کیوں ہے؟ اس کی کوئی دوسری شکل کیوں نہیں ظاہر ہو سکی۔ افریقہ، ایشیا اور آسٹریلیا کے باشندوں نے برطانیہ، امریکہ اور یورپی ممالک کو کیوں اپنا زیرنگیں نہ بنایا، نوآبادیات قائم کرنے والوں کو کسی نے غلام کیوں نہ بنایا۔ اس کا جواب شاید اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ ان سلطنتوں نے جن کے پاس فولادی تھیار تھے انہوں نے ان قبائل کو جو پتھر اور لکڑی کے ہتھیار استعمال کرتے تھے فتح کر لیا اور نیست و نابود کر دیا، یا جس کے پاس برتر ٹیکنالوجی تھی اس نے دوسرے کو زیر کر لیا۔ جیرڈ نے ترقی کے جس وحشی انداز کو بیان کیاہے اس کی وجہ سے 6ہزار زبانیں نابودی کے خطرے کا شکار ہیں۔ انگریزی، چینی، فرانسیسی جیسی زبانیں نئے علاقوں میں پھیل رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو ان زبانوں کا پھیلائو مقامی معاشرت، ادب اور زبانوں کو سکیڑ رہا ہے۔ پسپا کر رہا ہے۔ پاکستان میں تعلیم یافتہ کہلانے والے افراد بھی اب اسے خواندہ سمجھتے ہیں جو انگریزی لکھ اور بول سکتا ہو۔ اردو، پنجابی، سندھی، پشتو اور بلوچی زبان کو اب خواندگی تصور نہیں کیا جا رہا۔
ہم شہروں کی زندگی کو اپنا چکے لیکن اب کھلی جگہ رہنا چاہتے ہیں، کئی نسل پہلے آبائو اجداد شکاری زندگی ترک کر کے کاشت کاری کی طرف راغب ہوئے، ہم کاشت کاری چھوڑ کر، پیشہ وارانہ طرز زندگی میں آئے اور اب خدمات کی فراہمی سے روزی روٹی کما رہے ہیں۔ ہم خواندگی کے نئے معانی اپنی ذات میں واقع تبدیلیوں میں سمو رہے ہیں۔ ایک تقابل کا احساس ابھر رہا ہے۔ ہم میں سے کچھ سوچ رہے ہیں کہ ہمارے شکاری آبائو اجداد خوشحال زندگی گزار رہے تھے، کاشت کاری والے بزرگ آسودہ تھے یا پھر آج ہم آسودہ ہیں، لفظ لکھ کر، لفظوں کے ذریعے سیاسی اور ثقافتی تصورات کو اجاگر کرنے والے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ہم جن سماجی و شہری اقدار کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں انہوں نے ہمیں خاندان اور سماجی سہاروں سے محروم کر دیا ہے۔ ہم میاں محمد بخش، وارث شاہ اور بلھے شاہ سے دور ہو رہے ہیں۔
ہر روز ہزاروں افراد لیکچر دے رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، اپنے نظریات اور خیالات کا پرچار کر رہے ہیں مگر سوال ہیں کہ اطمینان بخش جواب نہیں پاتے۔ پاکستانی تو بالکل اس سوال پر غورہی نہیں کرتے کہ کس طرح کچھ لوگ دوسرے لوگوں پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہم اس معاملے پر سوچتے ہیں تو اس انداز میں کہ اپنے پسندیدہ گروہ یا حملہ آور کے غلبے کو جواز فراہم کرنے کے لئے۔ جیرڈ نے اس بحث پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:
ماہرین نفسیات قاتلوں اور عصمت دری کرنے والوں کے ذہنوں کو سمجھنے کی کوششیں کرتے ہیں، سماجی تاریخ دان نسل کشی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، طبیب انسانی بیماریوں کی وجوہات جاننے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ محققین، قتل عصمت دری اور نسل کشی کا جواز تلاش نہیں کر رہے ہوتے وہ ان وجوہات کے بارے میں اپنی سوجھ بوجھ سے اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان کی علاقائی ثقافتیں ہمارے اجداد کی فکری اور فنی وراثت ہیں۔ ہم پنجابی ہوں، پختون ہوں، سندھی، بلوچی، کشمیری یا پھر زبان کی بنیاد پر اپنی شناخت برقرار رکھنے والے گروہ، ہم سب پر فکری حملے ہوئے۔ جن کے پاس ثقافتی، علمی اور تہذیبی ہتھیار تھے۔ وہ جدید ریاست کی طاقت کے سامنے ہار گئے۔ کچھ لوگوں نے ہماری انفرادیت سے ریاست کو ڈرا دیا، ان کے ہمخیال ریاست کے مختار تھے لہٰذا اب ہم اپنے آپ سے ہی بیگانے اور اجنبی ہو کر سوچ رہے ہیں کہ ہم مغلوب کیسے ہو گئے؟