مذہبی روا داری کے حوالے سے یورپ کی حالت مثالی نہیں۔ اسلام کے حوالے سے اہل مغرب کا تعصب کم ہونے میں نہیں آرہا، کیا پتہ نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کی طرح کسی روز اسلاموفوبیا کے خلاف مغربی دنیا اٹھ کھڑی ہو مگر جانے کب؟
اسلام کیا ابھی یورپ عیسائیت کا احترام بھی نہیں سیکھ سکا، خصوصاً یوگو سلاویہ کے ٹوٹنے سے وجود میں آنے والی ریاستوں میں ایک دوسرے کے عقاید کو برداشت کرنے کی روایت اب تک مستحکم نہیں ہو سکی۔ یوکرائن کو دیکھیں تو مسیحی فرقوں میں مذہبی اختیار اور مقدس مقامات پر قبضے کی کشمکش ختم نہیں ہوئی۔
رومن سلطنت نے 380ء میں عیسائیت کو سرکاری مذہب قرار دیا۔ اگلی دو صدیوں میں یورپ کا بڑا حصہ عیسائیت قبول کر چکا تھا۔ پندرہویں صدی تک باقی ماندہ علاقہ بھی مسیحی ہو چکا تھا۔ جوں جوں عیسائیت قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا مذہبی طبقے نے سماج کی روحانی ضروریات کے ساتھ ساتھ سماجی و سیاسی سوچ کو بھی اپنے تابع بنا لیا۔ مذہبی اشرافیہ نے پوپ کا منصب تخلیق کیا اور پھر پوپ کے نام تمام اختیارات منتقل ہونے لگے۔ یہ سچ ہے کہ ہر مذہب نے انسانی سماج کے عصری مسائل کو خصوصی اہمیت دی۔
مخصوص طبقات نے سماج کو باور کرایا کہ مذہب کی تاویل اور تشریح کیلئے صرف ان سے بات کی جائے۔ مسیحی یورپ میں متعدد فرقوں کی بنیاد اسی تشریحی اختیار کے بدلے ملنے والے فوائد نے رکھی۔ مسیحیوں کی اولین نسلوں کو باور کرایا گیا کہ سیاسی ضابطے کو خدائی سلطنت کی شکل میں قائم کیا جائے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو اس سلطنت کا روحانی بادشاہ بتایا گیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے ان الفاظ کو پھیلایا گیا کہ "میری بادشاہت اس دنیا کے لئے نہیں " مطلب یہ کہ مذہبی طبقہ حضرت عیسیٰ ؑ کا جانشین اور حکمرانی کا حقدار ہے۔ اس سے عام لوگ متاثر ہوئے۔
پالین مشن نے یہ تصور پیش کیا کہ حکمران مجلس اور رومن سلطنت کا سیاسی منشور خدا کی طرف سے دیا گیا ہے۔ اس لئے تمام مسیحیوں کو مذہبی قائدین کی پیروی کرنا چاہیے۔ برگزیدہ قرار دیے گئے سینٹ پال نے قرار دیا کہ مسیح مخالف دنیا کے زوال سے مسیحی خود کو دور رکھیں۔ یہ سینٹ پال ہی تھے جنہیں نے عیسائیت کے سیاسی رجحانات کا تعین کیا۔ چوتھی صدی عیسوی میں شہنشاہ کونسٹنٹائن نے خود کو بشپ آف فارن افیئرز قرار دیدیا۔ اس طرح چرچ کا اختیار باز نطینی سلطنت کی حدود سے نکل کر دوسری ریاستوں سے تعلقات تک پھیل گیا۔
ریاستوں سے تعلقات مذہبی طبقے کی مرضی کے تابع ہوئے۔ 590سے 604ء تک حکومت کرنیوالے سینٹ گریگوری نے استعماری افسر شاہی کی کئی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ انہوں نے اٹلی کے لیمبارڈ بادشاہوں کے ساتھ مذاکرات کئے۔ ان کی انتظامی صلاحیت نے پاپائیت نواز ریاستوں کی بنیاد رکھی۔ آٹھویں صدی میں قائم ہونے والی ان ریاستوں کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ پوپ حضرت مسیح کا نمائندہ اور سینٹ پیٹر کا جانشین ہے۔ گریگوری کے دور میں سپین، گال اور شمالی اٹلی کے چرچ مضبوط ہوئے۔ انگلینڈ رومن عیسائیت کے دائرے میں داخل ہوا۔
مذہبی اشرافیہ نے مغرب کے سیاسی نظام کو یرغمال بنا لیا۔ بشپ خود کو سلطنت کا ولی عہد تصور کرتے۔ کئی بار ان کی دلچسپی روحانی اور مذہبی معاملات سے زیادہ سیاسی امور میں دکھائی دیتی۔ بادشاہ اگر ان کی بات تسلیم نہ کرتا تو یہ بادشاہ پر کفر کا حکم لگا دیتے، اسے گمراہ مشہور کر دیتے، کئی بادشاہ مذہبی اشرافیہ سے بغاوت کے جرم میں قتل کئے گئے۔ بارہویں صدی عیسوی میں سلطنت کا منشور رومن قانون کی بنیاد پر دوبارہ تشکیل دیا گیا تاہم بادشاہ اور کئی پوپ آپس میں جھگڑنے لگے۔ چرچ کو یورپ میں نیشن سٹیٹ کے ابھرتے تصور سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ تمام پوپ بادشاہوں کو قابو کرنے کے حربے آزماتے رہے۔ پوپ اور اس کے ساتھیوں کو ریاست کی بہبود، تجارت اور عوام کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی تھی نہ صدیوں کے اختیار کے باوجود اس کام میں انہوں نے تجربہ حاصل کیا۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں پاپائیت کے خلاف جذبات فروغ پانے لگے۔
انگلینڈ کے بادشاہ ہنری ہشتم نے چرچ آف انگلینڈ کو پاپائیت کی بالادستی سے الگ کر دیا۔ کیتھولک ریاستوں سپین، پرتگال اور فرانس میں بھی تبدیلی آنے لگی۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں امریکہ اور فرانس میں انقلاب کے نتیجے میں چرچ اور سٹیٹ الگ الگ ہو گئے۔ مغرب نے چرچ کے سیاسی کردار کو کم کرنے کی جو وجوہات پیش کیں ان میں بتایا گیا کہ چرچ لوگوں میں خوف پیدا کرتا ہے۔ لوگ اس خوف کے باعث زندگی سے ڈرے ہوئے تھے۔ چرچ کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے۔ چرچ لوگوں کو بااختیار بنانے کی بجائے مذہبی اشرافیہ کو طاقتور کرتا تھا۔ مذہبی اشرافیہ کسی ایک ضابطے اور سوچ کی پابند نہیں ہوتی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات کی تشریحات الگ الگ ہونے لگیں، جو سینٹ اور پوپ آئے انہوں نے اپنی فہم کے مطابق مذہب کے کردار کا تعین کیا۔ صدیوں تک تشریح میں اختلاف کا عمل شدید جھگڑے کا سبب بن گیا۔ مغرب کو آخر طے کرنا پڑا کہ ریاست کے سامنے مذہب، دولت اور سماجی اعتبار سے سب کو مساوی درجہ دینے کیلئے سب کو جوابدہ بنانا پڑیگا۔ کوئی قانون سے با تر نہیں ہوگا چاہے وہ بشپ اور پوپ ہی کیوں نہ ہو۔
اس کالم میں جن حقائق کا ذکر کیا گیا ہے وہ تاریخ کی کتابوں میں مل جاتے ہیں۔ بلکہ پاپائیت نے سیاسی کشمکش کے دوران جو ظلم ڈھائے ان کی تفصیل پر بے شمار مواد کتابوں، مضامین اور ویڈیوز کی صورت میں انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
پاکستان میں مذہبی طبقات کا خاصا بڑا حصہ سیاست کی وجہ سے زندہ ہے۔ جو عالم باعمل ہیں وہ اب بھی اپنے قلم اور زبان سے اخلاقیات اور ایمانیات کے موضوعات پر رہنمائی کر رہے ہیں۔ ہم لوگ ان سے ایمان کی سلامتی کا درس لیتے ہیں۔ لیکن کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یورپی تاریخ نئے کرداروں میں ڈھل کر ہم پر بیت رہی ہے؟