Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Imani Qurani Tafteesh Wala Muntashir Nizam

Imani Qurani Tafteesh Wala Muntashir Nizam

ہم اس سماج میں رہتے ہیں جہاں لوگ انصاف مانگتے ہیں لیکن ناانصافی کرتے ہیں۔ ہم اس سماج میں رہتے ہیں جہاں ادنیٰ سے اعلیٰ قاضی تک بولتے ہیں، کرتے کچھ نہیں۔ ریاست کے ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانیوں نے فوج اور میڈیا کو چوتھا اور پانچواں ستون بنا رکھا ہے۔

ریاست کے دو ستون آپس میں ٹکرا جائیں تو ملک میں بحران پیدا ہوتا ہے۔ ریاست کے تمام ستون ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت لیں تو ملک انارکی کا شکار ہو جاتا ہے۔ نوے کے عشرے میں جب اسمبلیاں ٹوٹا کرتی تھیں تو سیاسی بحران جنم لیتا۔ چیف جسٹس یا آرمی چیف کے ساتھ انتظامیہ کا سربراہ وزیر اعظم جھگڑے پر آمادہ ہوتا تو آئینی بحران کا خدشہ پیدا ہو جاتا۔ عموماً انتظامیہ کے مقابلے میں باقی ستون دوسرا دھڑا بنا لیتے اس طرح سے جمہوریت کو کمزور کیا جاتا۔

جمہوریت کے استحکام کے لئے سب سے زیادہ جانی و مالی قربانیاں بائیں بازو کی جماعتوں نے دیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جمہوریت کو اپنے مفادات کی لونڈی مسلم لیگ نون نے بنایا۔ یہ مسلم لیگ ہے جس نے بازار سیاست سے ہر وہ جنس نایاب اٹھا لی جس کے گرد عوام جمع ہو سکتے تھے۔ عدلیہ کے بہت سے اہم کردار خریدے گئے اور پھر ان میں سے کچھ کو سیاسی عہدوں سے بھی نوازا گیا۔ وہ عدلیہ جو لڑائی کے فیصلہ کن موڑ پر انتظامیہ کے خلاف آمروں کو قانونی جواز دیتی رہی اس کو اپنی طاقت پہچاننے میں کئی عشرے لگ گئے۔ جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک کیسے اور کن لوگوں نے منظم کی اس سے قطع نظر دیکھئے کہ اس تحریک کے نتیجے میں عدلیہ نے سلیپنگ پارٹنر کا کردار جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔ اب انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں کے ساتھ عدلیہ بھی سرگرم کردار ادا کرنے لگی۔ افتخار چودھری نے اسے جوڈیشل ایکٹوازم کا نام دیا۔ اگر کوئی تجزیہ نہیں کر سکا تو جان لے کہ وکلا اور عدالتوں سے شکایات اس تحریک کے بعد بڑھی ہیں، عوام کی طرح ادارے بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں۔

تحریک انصاف کے 35کے قریب اراکین کی وزیر اعظم نے تسلی کرا دی ہے۔ جہانگیر ترین کی حمایت میں گروپ بنانے والے اراکین کا خیال تھا کہ پنجاب اور وفاق کی حکومتیں ان کے قدموں کی آہٹ سے گر جائیں گی۔ چھوٹے چھوٹے گروپوں سے بلیک میل ہونے والی حکومتوں کی پوری تاریخ ہے۔ شاید اسی لئے تجزیہ کاروں کی رائے میں عمران حکومت کے چل چلائو کا وقت آ چکا تھا۔ ہو سکتا ہے چل چلائو کی کیفیت اب بھی ہو لیکن اس بار وزیر اعظم عمران خان ہیں اور انہوں نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ پاکستان کی سیاست میں نئے موسموں کی خبر دیتا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے جہانگیر ترین کے خلاف شوگر کمیشن کی تحقیقات اور منی لانڈرنگ مقدمات میں کوئی دبائو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے راجہ ریاض جیسے خیالات رکھنے والے جہانگیر ترین کے ساتھی اراکین کو واضح جواب دیدیا ہے کہ جس نے استعفیٰ دینا ہے دیدے۔ میں سچ سے نہیں ہٹ سکتا، ساری کارروائی بلا امتیاز ہو گئی۔ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہو گی، جہانگیر ترین بے گناہ ہوئے تو چھوٹ جائیں گے۔ قصور وار ہوئے تو کارروائی ہو گی۔ وفد نے جہانگیر ترین پر الزامات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے اور مشیر احتساب شہزاد اکبر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا۔ تاہم بیرسٹر علی ظفر کی ون مین کمیٹی بنا دی جو فریقین کا موقف جان کر اپنی رپورٹ وزیر اعظم کو پیش کرے گی۔ ہے نا کمال کی جرات مندی اور مشکل حالات میں جرات مند فیصلہ۔ لیکن کوئی اعلیٰ رائے قائم کرنے سے پہلے کراچی کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کی فقیدالمثال ناکامی کی وجوہات ضرور پیش نظر رکھی جائیں۔ ایک طرف بلندی دوسری طرف زوال۔

میری، آپ کی زندگی میں طاقتوروں کا گھولا زہر شامل ہو رہا ہے، ایک ستون بولتا ہے کہ دوسرے ستون کو ہتھکڑیاں لگا دے گا، دوسرا ستون تیسرے کو اپنا رویہ ٹھیک کرنے کا کہتا ہے، تیسرا پہلے کا سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کر دیتا ہے۔ آوازیں اتنی بلند کہ گویا عوام کا ہر مسئلہ حل کیا جا رہا ہے، حقیقت یہ کہ اپنا ہی کوئی مطالبہ دوسرے ستون سے منوایا جا رہا ہوتا ہے۔

بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ ہم اور آپ کہاں اپنی رائے دے سکتے ہیں، کوئی رائے دیں بھی تو کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ رائے تو ان کی ہوتی ہے جن کی بات پر ہیڈ لائنز بنتی ہیں۔ آج کل مخصوص شخصیات کو ہیرو بنانے کی حکمت عملی چل رہی ہے۔ طاقتور حلقے اپنے اپنے ہیرو بنا کر ہمیں مرعوب کرتے ہیں۔ ہم ان سب کو سلام کر کے عافیت کے درخواست گزار ہوتے ہیں۔ کل ایک دوست نے دلچسپ واقعہ سنایا کسی علاقے میں چوری کی بڑی واردات ہو گئی۔ بہت تحقیقات ہوئیں، اتھرے سے تھانیداروں نے مشکوک افراد کوالٹا لٹکا کر تفتیش کی، کھوجیوں نے پتہ چلایا، کچھ سمجھ نہ آئی۔ آخر بات ایمانی قرآنی تفتیش پر آ گئی۔ چار بندوں نے ایک چادر پکڑی، اس میں قرآن پاک رکھا اور سارے قصبے کو کہا گیا کہ چادر کے نیچے سے گزریں۔ یقین یہ تھا کہ چور چادر کے چار ستونوں کے نیچے سے گزرا تو مر جائے گا۔ پورا قصبہ گزر گیا لیکن چور کا پتہ نہ چلا۔ پتہ بھی کیسے چلتا کہ چوروں نے تو چادر کے کونے پکڑ رکھے تھے۔

عمران خان اتحادیوں کو منا رہا ہے، اپنے اراکین کے غیر قانونی مطالبات اور دبائو کو مسترد کر رہا ہے۔ انتظامیہ کے خلاف ایک ستون کے سرگرم کردار کو برداشت کر رہا ہے۔ مسائل کا کڑوا ملک شیک روز پینا پڑ رہا ہے۔ عام آدمی کو ہر روز مختلف ٹی وی شوز میں بیٹھے دس آدمی بتا رہے ہیں کہ عمران کے دور میں غریب مارا گیا۔ غریب کو کوئی نہیں بتا رہا کہ ملک انارکی کی طرف جانے کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ انارکی ملک کو کمزور کرتی ہے۔ قیمتی اثاثے بک جاتے ہیں، اصولی موقف تبدیل کرا لئے جاتے ہیں اور آزادی گروی رکھ دی جاتی ہے۔