پروفیسریوآن لونگ پن انتقال کر گئے۔ پاکستان کو ان کی تیارچاول کی اقسام سے 2.50 ارب ڈالر کا منافع مل چکا ہے۔ ہم پاکستانی تو ڈاکٹر طارق محمود چٹھہ سے واقف نہیں جو نا قدری کا شکار ہو کر آسٹریلیا جا بسے، پودوں کی جینیاتی سائنس کے ماہر 90 سالہ چینی سائنسدان کے فوت ہونے کا ہمیں کیا پتہ ہو۔ یوآن لونگ کو چاول کاشت کرنے والے ایشیائی و افریقی ممالک میں ہیرو سمجھا جاتا ہے۔ ہر وہ انسان انہیں ہیرو سمجھتا ہے جو بھوک کو انسانی آبادی کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ پروفیسر یو آن نے بھوک کے خاتمہ کی خاطر دھان کی ایسی اقسام تیار کیں جو زیادہ جھاڑ دیتی ہیں۔ کسی زمانے میں دھان اور گندم گھاس ہوتے تھے، چند دانے لگتے، پھر بھوک کو دشمن سمجھنے والوں نے ان گھاس کے پودوں کو ایک دوسرے سے کراس کرنا سیکھا۔ پروفیسر یوآن لونگ رواں برس مارچ میں چاول کی نئی اقسام تیار کرنے والے ادارے کا دورہ کرتے ہوئے گر گئے جس کے بعد ان کی صحت خراب ہوتی چلی گئی۔ چین میں یوآن لونگ کو زرعی سائنس کے باوا آدم کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کی موت کی خبر پر پورا چین اداس ہے۔ ڈیڑھ ارب آبادی والا چین سوگوار ہے۔ بے شمار لوگوں کے تعزیتی پیغامات ذرائع ابلاغ میں نشر ہورہے ہیں، ان کی میت پر پھول رکھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔
یوآن لونگ نے ہائی برڈ چاول کی کاشت کے سلسلے میں دو بڑی دریافتیں کیں۔ یہ 1970ء کی بات ہے ان کی ان دریافتوں کو 1950ء اور 60ء میں گندم کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام تیار کرنے والے امریکی پلانٹ سائنسٹسٹ نارمن بولاگ کے مساوی اہمیت حاصل ہے۔ ان دونوں کی خدمات کے باعث دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی قحط کے خطرات سے محفوظ ہوئی۔ یوآن لونگ پن کی تحقیق کو اس لحاظ سے نارمن سے برتر سمجھا جاتا ہے کہ گندم دنیا کی ایک تہائی آبادی کی خوراک میں شامل ہے جبکہ چاول آدھی آبادی کی خوراک ہے۔
یوآن لونگ نے 1970ء میں جب دھان کی زیادہ پیداوار کی اقسام تیار کیں تو اس سے پہلے دیہی علاقوں میں جا کر موزوں مقامی اقسام تلاش کیں جن کے جینز کو ملا کر بہتر اقسام تیار کی جا سکتی تھیں، انہیں اپنے مقصد میں اس وقت کامیابی کی امید ہوئی جب ان کی ٹیم کو ہینان آئس لینڈ میں ریلوے لائن کے قریب دھان کی ایک جنگلی قسم ملی۔ انہوں نے تحقیقی مقالے میں اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح اس جنگلی دھان کی جینز کو دھان کی کمرشل پیداوار بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دھان کی ہائبرڈاقسام پر کام ہو رہا تھا، یواام اپنے کام سے اس قدر مخلص تھے کہ وہ زیر تجربہ پودوں کی زندگی کے ایک ایک منٹ کا مشاہدہ نوٹ کیا کرتے۔ وہ سال کا بیشتر حصہ دھان کے کھیتوں میں گزارا کرتے۔ چینی زرعی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یوآن لونگ نے اپنی زندگی لیبارٹری میں بیٹھ کر اور تحقیقی مقالہ نگاری پر صرف نہیں کی بلکہ وہ عمل پر یقین رکھتے تھے۔ جن شاگردوں کو ان کی سرپرستی میں کام کا موقع ملا ان کی اکثریت کو بڑا مقام ملا۔ ان کی دریافتیں اہل چین کے لیے باعث فخر ہیں۔
یوآن لونگ کی اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تحقیق کو صرف چین تک محدود نہیں رکھا بلکہ پوری دنیا میں چاول کی پیداوار والے علاقوں کو اس فائدے میں شامل کرنے پر زور دیا۔ 1971ء میں انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فلپائینز، انڈین ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور کیلیفورنیا کے سائنسدانوں کی الگ الگ تحقیقی رپورٹس شائع ہوئیں۔ یوآن لونگ کا پیپر سب سے زیادہ اہم قرار دیا گیا۔ اس کے بعد چاول پر تحقیق میں چین نے پوری دنیا پر اپنی سبقت قائم کرلی۔ بھارت، فلپائنز اور امریکہ نے بھی اپنی تحقیق جاری رکھی۔ اگلے برس یوآن لونگ نے چاول کی ہائبرڈ قسم تیار کرلی۔ اس عمل میں دیہی علاقے میں ریلوے پٹڑی کے قریب ملنے والی جنگلی قسم کے جینز نے نمایاں کام کیا۔
ہائبرڈ اقسام کا چاول دوسری اقسام کی نسبت 20 سے 30 فیصد زیادہ پیدوار دیتا ہے۔ یوآن لونگ اور ان کے ساتھیوں نے جب ایشیائی ممالک میں ہائبرڈ قسم متعارف کرائی تو ساتھ کھاد، پانی اور دوسری تکنیکی چیزوں کی شرح اور اوقات بھی تبدیل کردیئے۔ اس سے اضافی پیداوار کی شرح مزید بڑھ گئی۔
3 ستمبر 1930ء میں بیجنگ میں پیدا ہونے والے یوآن لونگ کی والدہ انگریزی پڑھاتی تھیں۔ والد ایک سکول ٹیچر تھے جو بعد میں ریلوے میں افسر بھرتی ہو گئے۔ یوآن اپنی والدہ سے بہت متاثر تھے۔ جاپانی حملے اور معاشی مشکلات کی وجہ سے ان کا خاندان جنوبی چین میں مختلف مقامات پر رہائش تبدیل کرتا رہا۔ 1949ء میں جب کیمونسٹ پارٹی اپنا کنٹرول قائم کر رہی تھی تو وہ کالج میں داخل ہوئے۔ کالج میں ایگرانومی ان کا انتخاب تھا۔ وہ شہری پس منظر رکھنے کے باوجود دیہاتیوں کی دلچسپی والے مضمون کو پسند کرتے۔ مائو کے زمانے میں قحط نے یوآن کے عزم کو مزید پختہ کر دیا کہ دنیا سے بھوک کو ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کراپ جینٹکس میں اعلیٰ تعلیم پائی۔ یوآن نے مائو کی تکنیک کے برعکس سوویت سائنسدانوں کی تحقیق سے اتفاق کیا۔ انہیں پروفیسر گوآن زی کی سرپرستی ملی جنہیں 1950ء کے عشرے میں کیمونسٹ دشمن قرار دیا گیا۔
1953ء میں گریجوایشن کے بعد یوآن ہنان کے ایک ایگریکلچر کالج میں ٹیچر تعینات ہوئے۔ مائو نے جب زراعت کو نظر انداز کر کے فولاد اور دوسری صنعتوں پر ساری توجہ دی تو یوآن لونگ نے کہا کہ بھوک صرف زراعت دور کر سکتی ہے۔ کچھ نہ ملے تو گھاس اور جڑیں کھا کر زندہ رہا جا سکتا ہے۔ لوہے سے پیٹ نہیں بھرتے۔ کمیونسٹ پارٹی یوآن کو ایک مثالی سائنسدان قرار دے چکی ہے۔ مرنے سے ایک دن پہلے تک وہ چاول کی نئی اقسام پر کام کر رہے تھے۔ آنجہانی یوآن کی یادداشتوں میں ان کے کام کو چار لفظوں سے یاد کیا گیا ہے۔ علم، پسینہ، امید اور مواقع۔