قلم دوست کے رکن اور عزیز دوست ڈاکٹر اختر سندھو نے وائس چانسلر خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان کے ساتھ ایک نشست رکھی تو معلوم ہوا جنوبی پنجاب میں تعلیمی سہولیات کے ضمن میں اہم کام ہورہا ہے۔
وی سی ڈاکٹر سلیمان طاہر انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی ہیں۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ وہ کئی کھیلوں میں یونیورسٹی گرانٹس کمشن کی ٹیم کا حصہ رہے۔ زمانہ طالب علمی سے ان کے دوست اور سینئر صحافی میاں عابد اور عدنان احمد نے بتایا کہ انہیں تعجب ہوا کرتا کہ ایک کھلاڑی کیسے اتنے اچھے نمبر لے جاتا ہے۔
ڈاکٹر سلیمان طاہر نے بتایا کہ ساڑھے تین سو ایکڑ کے لگ بھگ رقبے پر بنی یونیورسٹی میں بنیادی طور پر انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ادارے میں طلباء و طالبات کی تعداد 11 ہزار کو پہنچ چکی ہے اور عمارات کی تعمیر مکمل ہونے کے ساتھ یہ تعداد مزید بڑھتی جائے گی۔ یونیورسٹی کے ہر سمسٹر میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ایک پیپر کا نصاب کسی فارن پروفیسر سے پڑھوایا جائے۔ غیر ملکی استاد آن لائن پڑھاتے ہیں جس سے نہ صرف طلباء بلکہ مقامی اساتذہ کو بھی نئی ایجوکیشن تکنیکس سے واقفیت ہوتی ہے۔
گجرات، کھاریاں، گوجرانوالہ اور جہلم ایسے علاقے ہیں جہاں ہر گھر سے کئی افراد روزگار کے سلسلے میں یورپ گئے ہیں۔ ان علاقوں کے دیہات اپنے مکانات اور بنیادی سہولیات کے اعتبار سے بڑے شہروں کی خوشحال آبادی سے کم نہیں۔ ایک بار سرائے عالمگیر سے بذریعہ روڈ منڈی بہائوالدین جانے کا اتفاق ہوا۔ نہر کے دائیں ہاتھ ایک قصبہ دیکھا۔ بڑے بڑے گھر، شاندار باغات اور انٹرنیٹ، بجلی، گیس، پانی کی سہولیات دستیاب۔ ہم نے گاڑی اس قصبے کی طرف موڑ دی۔ مکینوں کی خوشحالی قابل رشک تھی۔
پوران شریف کے نام سے جانا جاتا یہ بڑا سا گائوں یورپ میں مقیم افراد نے آباد کیا ہے۔ اب وہ سال میں ایک آدھ بار یہاں آتے ہیں۔ بوڑھے ماں باپ یا ملازمین ان حویلیوں میں رہائش کئے ہوئے ہیں۔
گجرات کے پاس ٹانڈہ گئے تو وہاں بھی یہی حال تھا۔ ان گھروں کے لڑکے تعلیم اور روزگار کے لیے دور چلے جاتے ہیں لیکن بیٹیاں سہولیات نہ ہونے پر اعلیٰ تعلیم جاری نہ رکھ پاتیں۔ گجرات یونیورسٹی بنی تو خوشحال گھرانوں کی لڑکیوں کی تعداد پہلے سال ہی بڑھ گئی۔ یونیورسٹی نے زیادہ تعداد میں بسیں خریدیں اور اردگرد کے قصبات و دیہات سے لڑکیوں کو لانے پہنچانے کی سہولت فراہم کردی۔ ڈاکٹر سلیمان طاہر اس وقت گجرات یونیورسٹی میں تھے۔ انہوں نے یہی فارمولا خواجہ فرید یونیورسٹی میں آزمایا۔ رحیم یار خان کے مضافات خاصے پسماندہ ہیں۔ لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں، نئی یونیورسٹی نے ان کی خواہش پوری کردی۔
خواجہ فرید یونیورسٹی میں کم پڑھے نوجوانوں کے لیے کئی طرح کے سرٹیفکیٹ اور پیشہ وارانہ تربیت کے پروگرام شروع کئے گئے ہیں۔ فائن آرٹس کا شعبہ موجود ہے۔ صنعتکاروں سے مشاورت کر کے اعلیٰ تعلیم کے کورسز متعارف کرائے جا رہے ہیں جس سے فارم التحصیل طلباء کے لیے نوکری یا کاروبار کے مواقع بڑھے ہیں۔ کھیلوں کی ترویج پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ایسے طلباء کو داخلے میں رعایت دی جاتی ہے جو اچھی کھلاڑی ہیں۔
رحیم یار خان اور جنوبی پنجاب کے اکثر سرسبز و شاداب علاقے وسطی پنجاب سے گئے کاشت کاروں کی محنت کے باعث زرعی ترقی سے ہمکنار ہورہے ہیں۔ اس علاقے میں مقامی آبادی کو بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں کی طرف سے استحصال کا سامنا رہا ہے۔
تعلیمی پسماندگی نے ان غریب لوگوں کے بنیادی حقوق بھی چھین رکھے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا صوبہ بننے سے خواجہ فرید یونیورسٹی اس کا بڑا تعلیمی مرکز بن سکتی ہے۔ یونیورسٹی میں زرعی تعلیم کے حوالے سے چند گزارشات ڈاکٹر سلیمان طاہر کے گوش گزار کی ہیں جن سے متعلق انہوں نے وعدہ کرلیا ہے۔ ٭٭٭٭٭
ڈائریکٹر جنرل محکمہ اوقاف پنجاب برادرم ڈاکٹر طاہر رضا بخاری خود ایک محقق اور اعلیٰ علمی ذوق کے مالک ہیں اس لیے علمی سطح کی تقریبات کے انعقاد پر کمر بستہ رہتے ہیں۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے عرس کی تقریبات کے موقع پر انہوں نے اہل قلم کانفرنس سجائی۔ ہمارے گروپ ایڈیٹر سید ارشاد احمد عارف، سہیل وڑائچ، ایثار رانا، شاہنواز رانا، ضیاء الحق نقشبندی، امتیاز تارڑ اور اسلم ترین صاحب شریک ہوئے۔ شدید آرزو کے باوجود خاکسار حاضر نہ ہو سکا۔ دل چاہتا ہے کہ اپنی اس غیر حاضری کا ازالہ صاحب کشف المحجوب کے ارشادات نقل کر کے کروں:
"میں اس شخص پر تعجب کرتا ہوں جو جنگل و صحرا اور بیابانوں کو طے کرتا ہوا خدا کے گھر اور حرم پاک تک پہنچتا ہے لیکن وہ اپنے نفس کے جنگل اور خواہشات کی وادیوں کو طے کر کے اپنے دل تک پہنچنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا کیونکہ دل میں تو اس کے مولیٰ کے آثار ہیں۔"
"یاد رکھو کہ ہر جگہ اور ہر حال اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے۔ خواہ وہ نیک ہو یا بد۔ تیرے لیے مناسب ہے کہ تو اس کے کسی فعل پر انگشت نمائی کرے اور نہ ہی دل میں اس پر معترض ہو۔"
خاک پنجاب ازم دم او زندہ گشت
صبح از مہر او تا بندہ گشت
عاشق و ہم قاصد طیار عشق
از جیبش آشکار اسرار عشق