ہم ملائیشیا صف سیاحت سے غرض سے گئے۔ میرے دوست کاروباری آدمی ہیں۔ ان دنوں یہ اطلاعات تواتر کے ساتھ آ رہی تھیں کہ ملائیشیا پاکستان سے 6لاکھ افراد کو روزگار کی غرض سے بلانے والا ہے۔ جو لوگ افرادی قوت کو بیرون ملک بھیجنے کا کام کرتے ہیں وہ کافی متحرک تھے۔ میرے دوست چاہتے تھے کہ ان 6لاکھ میں سے 25ہزار کے قریب افراد کا کوٹہ ان کی کمپنی کو مل جائے۔ ایک بااثر دوست سے درخواست کی اس نے ملائیشیا کے کچھ پارلیمنٹرینز، سرمایہ کاروں اور قانونی ماہرین سے رابطہ کرا دیا۔ یہ اگست 2004ء کے دن تھے۔ لاہور سے تھائی ایئرویز کی پرواز ہمیں بنکاک لے گئی، وہاں سے آگے کا سفر ملائشین ایئر لائنز سے کیا۔ کوالالمپور کو کے ایل کہتے ہیں۔ ایئر پورٹ سے ٹیکسی پکڑی جو ہمیں ایک ریل سٹیشن پر لے گئی، وہاں سے تیز رفتار ٹرین کے ذریعے ہم کے ایل سٹی جا پہنچے۔
ملائیشیا میں مقامی آبادی زیادہ تر چھوٹے شہروں میں رہتی ہے۔ بڑے شہروں میں صرف وہ لوگ رہ رہے ہیں جن کا کاروبار اور روزگار سیاحوں سے جڑا ہوا ہے۔ ہوٹل میں کمرہ حاصل کرنا مشکل کام ہے۔ کوالالمپور شہرمیں 50کے قریب 5سٹار ہوٹل ہیں، ہمارے لاہور میں ایسے صرف تین چار ہوٹل ہیں سفر کرنا سستا ہے۔ ہم نے عام ٹرین، ٹیکسی، پیدل اور شہر میں چلنے والی مونو ریل سے سفر کیا۔ پودوں کی نرسریاں دیکھیں۔ بھیڑ والے چھوٹے بازاروں میں گئے۔ عالیشان شاپنگ مالز کو دیکھا۔ ریڑھیوں کے بازار دیکھے۔ پب جم، ڈانس کلب میں گئے۔ عظیم الشان مساجد، پام کے جنگلات اور دفاتر میں وقت گزارا، کرنے کو کوئی کام نہیں تھا، بس مسلسل نئے لوگوں سے ملنا تھا۔ ایک چینی صنعتکار ہمیں اپنی بہت بڑی فیکٹری میں لے گیا۔ وہ کولڈ سٹوریج تیار کرتا تھا۔ اس فیکٹری کی کولڈ سٹوریج شیٹس آئس کریم وہیکل اور میڈیسن وہیکل کی تیاری میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہی فیکٹری ایسی شیٹس تیار کرتی ہے جن سے دو تین گھنٹے میں ایک چھوٹا سا گھر بن سکتا ہے۔
ہمیں پتہ چلا کہ ملائیشیا میں مزدور کی ماہانہ اوسط اجرت 500رنگٹ ہے۔ اس وقت ایک رنگٹ کی قدر 15روپے تھی۔ آج کل 30روپے کے لگ بھگ ہے۔ اس حساب سے تب اگر کوئی پاکستانی وہاں مزدوری کے لئے جاتا تو اسے ماہانہ 7500روپے ملتے۔ پروموٹر اداروں کا خیال تھا کہ ملائیشیا میں مزدور کے لئے بھیجے جانے والے افراد سے ویزہ اور دیگر اخراجات کی مد میں ڈیڑھ لاکھ وصول کئے جائیں۔ میرے دوست کو یہ سارا نظام بہت ظالمانہ محسوس ہوا کہ اتنی کم تنخواہ والے سے اتنے روپے لے کر اسے مزید بدحال کیا جانا تھا۔ ہم نے اسی وقت اس کاروبار کا ارادہ ترک کر دیا۔
ملائیشیا کے بازاروں اور مارکیٹوں میں پھرتے ہوئے احساس ہوا کہ پاکستان سے کئی چیزیں یہاں بھیجی جا سکتی ہیں۔ ملائیشیا میں وہ پریشر ککر9ہزار پاکستانی روپے میں فروخت ہو رہا تھا جو پاکستان میں 500میں مل جاتا تھا۔ چمڑے سے بنی بیلٹ پاکستان میں 100جبکہ ملائیشیا میں ایک ہزار کی مل رہی تھی۔ ہماری کٹلری اور کپڑے کی طلب موجود تھی۔ ہم نے کاروبار کے لئے کمپنی رجسٹر کرانے کا طریقہ کار پوچھا تو ہمارے نئے دوست بنے۔ ایک صاحب نے اپنی وکیل بیگم سے ملوایا۔ اگلے دن ہم اس کی لیگل فرم میں گئے۔ کمپنی رجسٹر کرانے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ایک ڈائریکٹر ملائیشیا کا شہری ہو۔ ہم دونوں نے اپنے پاسپورٹ کی کاپیاں دیں۔ کمپنی کی ملازم ایک خاتون عارفہ کی دستاویزات بطور مقامی ڈائریکٹر کے جمع کی گئیں۔ ہمارے کاروباری مفادات کو تحفظ دینے کے لئے مقامی ڈائریکٹر کا دستخط شدہ استعفیٰ ہمیں دیدیا گیا جس پر تاریخ کا اندراج نہ تھا۔
پاکستان میں چین اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ عرب امارات کی کمپنیاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، پاکستان روس آذر بائیجان، ازبکستان اور ترکی کو کہہ رہا ہے کہ پاکستان میں کاروبار کریں۔ مہاتیر محمد اگر وزیر اعظم رہتے تو اب تک پاکستان میں کئی ملائیشین کمپنیاں اپنے منصوبے شروع کر چکی ہوتیں۔ حال ہی میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ پاکستان تشریف لائے۔ پاکستان نے ان کے توسط سے ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کو یاد دہانی کرائی ہے کہ وہ سی پیک کے سپیشل اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کے معاہدے پر عملدرآمد کرائیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ان تمام ملکوں کے سرمایہ کاروں کو لاہور، کراچی، پشاور، فیصل آباد یا گوجرانوالہ کی گھریلو صنعتیں اور بڑے کارخانے دکھائے جاتے ہیں ہم نے کبھی یہ نہیں سنا کہ غیر ملکی کمپنیوں نے پاکستان میں زرعی سرمایہ کاری کے لئے سنجیدہ رابطے کئے ہوں سب سے توجہ طلب معاملہ ان غیر ملکی کمپنیوں کی پاکستان میں رجسٹریشن، کام کے طریقہ کار اور کم از کم ایک پاکستانی ڈائریکٹر شامل کرنے کا ہے۔ چین کے ساتھ ہم نے سرمایہ کاری کے معاہدے کرتے ہوئے ان اہم معاملات کو نظرانداز کیا۔
یہ سب کیوں ضروری ہے اس کی مثال 1990ء کے عشرے میں امریکہ کے پیدا کردہ معاشی بحران میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جس نے سارے ایشیا کو ہلا کر رکھ دیا لیکن ملائیشیا محفوظ رہا۔ ملائیشیا اس وجہ سے بچ گیا کہ غیر ملکی کمپنیوں کے 51فیصد حصص مقامی افراد کے پاس ہونے کی وجہ سے انتظامی کنٹرول ملائیشیا کے پاس رہا اور غیر ملکی افراد اور سرمایہ کار حکومتی پالیسوں میں مداخلت نہ کرسکے۔ بین الاقوامی رشتے صرف باہمی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ میزبان ملک کے مفادات کو سرمایہ کار کے دبائو کی وجہ سے نظرانداز کر دیا جائے تو یہ سرمایہ کاری نہیں معاشی قبضہ کہلائے گا۔