ایک تاریخ ہم کتابوں سے پڑھتے ہیں، تاریخ کا ایک حصہ ہم پر گزرتا ہے۔ ایک تاریخ دو سال بعد بنے گی جب ملک میں سیاسی انتشار اور تصادم سے نئے بحران پیدا ہوں گے۔ حالیہ ضمنی انتخابات تاریخ میں یاد رکھے جائیں گے کیونکہ ان سے مستقبل کی بڑی خرابی ظاہر ہو رہی ہے، مسلم لیگ ن کہے گی کہ اس نے اپنی نشستوں پر بھرپور میڈنیٹ کے ساتھ دوبارہ کامیابی حاصل کی لیکن اس کے ساتھ دھاندلی ہوئی، تحریک انصاف کہے گی کہ اس نے حکومت میں ہونے کے باوجود ضمنی انتخابات میں جیت کے لیے دھاندلی نہیں لیکن اس کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا، پیپلزپارٹی کہے گی کہ نظام اسے ہرانے کے لیے کام کرتا رہا۔ دیگر شخصیات اور جماعتوں کا زور بھی اپنی کارکردگی کے بجائے دھاندلی کے الزامات پر مبنی رہے گا۔ یہ سیاستدانوں کی تاریخ ہوگی۔ مجھ جیسے لوگ اس تاریخی دور کو مستقبل کے اس بڑے سیاسی و جمہوری بحران کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں جس کی بابت اوپر اشارہ دیا۔
ہم برطانوی طرز کی جمہوری روایات کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہر سماج کا اپنا سیاسی شعور اور جمہوری مزاج ہوتا ہے۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں دھواں دھار مباحث کی دلچسپ ویڈیوز موجود ہیں۔ فرصت ملے تو ضرور ملاحظہ فرمائیں۔ ٹرین کی بوگیوں میں نصب بنچوں سے ملتی جلتی نشستیں ہیں۔ اراکین ایک دوسرے کے ساتھ لگ کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے بنچ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ ایوان کے کسٹوڈین دونوں کے درمیان بیٹھتے ہیں۔ ہماری تمام اسمبلیوں میں حزب اختلاف و حزب اقتدار کی نشستوں کا رخ سپیکر کی طرف ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہو کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتے۔ بظاہر معمولی نکتہ ہے لیکن نشستوں کے اس اہتمام نے مزاج میں ایک دوسرے سے لاتعلقی، بے مروتی اور الزام تراشی میں بے باکی بھر ی ہے۔
جمہوری نظام کی بنیاد میرے اور آپ کے ووٹ پر کھڑی ہے۔ ووٹ ایک خشت ہے جس نے نظام کی عمارت چنی ہے۔ اب اگر کوئی خشت کی جگہ کچی مٹی کے ڈلے رکھ دے تو کیا ہوگا، مٹی کی دیوار کتنا بوجھ سہار پائے گی، موسموں سے کس قدر محفوظ رہے گی؟ ہمارے ہوش میں جتنے بلدیاتی، صوبائی و قومی اسمبلی اور سینٹ کے انتخابات ہوئے وہ کچی مٹی کے ڈلے تھے۔ ان پر کھڑی عمارت ایسی ناپائیدار ہی ہونی چاہیے کہ ہر وقت وزیراعظم کے تبدیل ہونے، اسمبلیاں تحلیل ہونے اور اراکین کی خریدوفروخت کے دھچکے پہنچتے۔ تاریخ یاد رکھے گی کہ ہم اپنے لیے اپنی ضرورت اور مزاج کا نہ نظام وضع کر سکے نہ عمارت تعمیر کر سکے۔
انتخابی عمل کئی طرح کے عوامی رجحانات کا پتہ دیتا ہے۔ جہاں سیاسی نظام فعال ہو وہ معاشرے عوامی رجحانات پر نظر رکھتے ہیں اور ضرورت پڑے تو ان رجحانات کے مطابق نظام کو ترقی دیتے رہتے ہیں۔ ہم ترقی کی بجائے تبدیلی کا عامیانہ لفظ استعمال کرنا پسند کرتے ہیں، الفاظ ہماری آرزوئوں کی خبر دیتے اور ان کی صورت گری کرتے ہیں۔ دھاندلی، سلیکٹڈ، جھرلو، ہارس ٹریڈنگ کے مقابل اگر ہماری سیاس لغت میں روشنی دینے والا لفظ رواج پایا ہو تو بتائیے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس نے ہمارے جمہوری رویوں کو لفظوں کی اس منفی ٹکسال میں ڈھالا۔
ہم جب ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے تو گویا جمہوری نظام سے انکار کرتے ہیں۔ یہ درست کہ ہر انتخاب کے نتیجے میں جو حکومت بنتی ہے وہ کسی پس پردہ کھلاڑی کی حمایت سے ابھرتی ہے۔ ایک اور پہلو بھی ہوتا ہے جس طرح افراد کی رائے انتخاب سے پہلے کسی خاص جماعت کے حق میں ہونے لگتی ہے اسی طرح اداروں کی رائے بھی بدلتی ہے۔ اداروں کو جو افراد چلاتے ہیں وہ سماج سے الگ نہیں ہوتے۔ یوں ہارنے والوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ اداروں پر الزام دھر کر اپنی بری کارکرگی اور عدم مقبولیت پر پردہ ڈال سکیں۔
ڈسکہ انتخابات میں مقابلہ سخت تھا۔ نتیجہ جو آیا وہ بالکل ٹھیک رہا۔ اکثریتی ووٹ چاہے ایک ہو جو زیادہ ووٹ لے وہ کامیاب ہوتا ہے۔ ایک لاکھ ووٹ لینے والا ایک لاکھ ایک ووٹ والے کو منتخب تسلیم کرلیتا ہے۔ ڈسکہ میں ضمنی انتخاب ہوا۔ پہلی بار انتظامی نالائقی نے نتائج مشکوک بنائے، دوسری بار فوج اور رینجرز کے انتظامات میں آئے نتائج قبول کرلیے گئے لیکن ہارنے والوں نے مسلم لیگ ن پر دھاندلی کے الزام ضرور لگائے۔ پھر کراچی کا ضمنی انتخاب ہوا۔ مسلم لیگ ن کو امید تھی کہ اس کے امیدوار مفتاح اسماعیل جیت جائیں گے، جیت پیپلزپارٹی کے قادر مندوخیل کی ہوئی۔ تحریک انصاف کا امیدوار پانچویں پوزیشن پر رہا۔ پیپلزپارٹی کے سوا اس بار باقی سب نے دھاندلی کا شور مچایا۔ سنا ہے شہباز شریف کراچی کی نشست پر ن لیگ اور پی پی کے درمیان پیدا کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ گنتی کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ کوشش کامیاب ہو بھی جائے تو سینٹ انتخابات، چیئرمین سینٹ اور پچھلے دونوں عام انتخابات کے غیر شفاف ہونے کا معاملہ کیسے نمٹایا جائے۔ معاملات اسی طرز پر آگے بڑھتے رہے تو آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے نتائج کوئی قبول نہیں کرے گا۔ ایک بڑے بحران کی تعمیر کے لیے کئی ہزار خشت تیار پڑی ہیں۔
ہم بحران کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں، سیاسی انارکی ہماری منزل ٹھہر چکی۔ جو ادارے سماجی، آئینی اور قانونی تنازعات کو حل کرنے کے لیئے کام کرتے ہیں وہ خود طاقت کا مظاہرہ کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ سب آپس میں لڑ رہے ہیں تاکہ ریاست تباہ ہو اور نچلے طبقات نابود ہو جائیں۔ پارلیمانی انتخابات قبول نہ کئے گئے تو کیا ہو سکتا ہے، تاریخ پڑھنے والے تو آگاہ ہیں، ابھی وہ لوگ حیات ہیں جنہوں نے ایسا ہوتے دیکھا تھا، 1977 میں ایسا ہی ہوا تھا، دھاندلی ضرور ہوئی تھی لیکن اس کو ایک تحریک کس نے بنایا، اس تحریک سے قومی اتحاد کو کچھ نہ ملا، اب بھی اپوزیشن کو کچھ نہیں ملے گا، ملائی کوئی اور کھائے گا۔