میاں شہبازشریف نے مسلم لیگ ن کی صدارت سے استعفیٰ دیا، پارٹی اراکین ششدر ہیں، شہباز شریف گیدڑ کی سو سالہ زندگی پر شیر کی ایک دن کی زندگی کو مقدم ثابت کرنا چاہتے تھے لیکن پھر حمزہ کے کہنے پر کچھ عرصہ خاموش رہنے پر تیار ہو گئے۔ دوسری طرف مریم بھی کچھ عرصہ کے لئے گوشہ تنہائی میں چلی گئی ہیں، وجہ کورونا بتائی گئی ہے۔ خیر شہباز شریف کے استعفے اور مریم کے کورنٹائن ہونے کی خبر پرانی ہو چکی۔ نئی خبر یہ ہے کہ گوشہ نشین مریم نواز نے شہباز شریف خاندان کو مائنس کر کے اپنی جماعت کے عہدیداروں کی فہرست پر کام شروع کردیا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں نوازشریف سے ابتدائی بات چیت ہو چکی ہے۔ امکان ہے کہ مریم نواز خود چیئرپرسن، شاہد خاقان عباسی کو صدر اور احسن اقبال کو سیکرٹری جنرل بنانے کا ارادہ کھتی ہیں۔ مریم اورنگزیب، طلال چودھری، لاہور کے کھوکھر برادران اور مصدق ملک مسلم لیگ م کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ایک ایسی مسلم لیگ بننے جا رہی ہے جسے نوازشریف پر کرپشن کے الزامات اور پاکستان مخالف عناصر سے روابطہ کی وضاحت کرنا ہے۔
مسلم لیگ کا پاور ہائوس پنجاب ہے۔ خاص طور پر لاہور، شیخوپورہ، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور اوکاڑہ کے اضلاع۔ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں مسلم لیگ کے اراکین کی وفاداریاں مضبوط اور قابل بھروسہ نہیں رہیں۔ ایک آدھ خاندان ممکن ہے وفادار ہو۔ پنجاب مسلم لیگ کے پاس دو شخصیات اثاثہ ہیں۔ حمزہ شہباز سینکڑوں ضمنی انتخابات کا تجربہ رکھتے ہیں۔ ہر حلقے کی دھڑے بندی، اہم پارٹی کارکنوں، انتخابی انتظامات سے واقف نوجوانوں اور انتظامیہ سے روابط کے لحاظ سے حمزہ کی صلاحیتیں تسلیم کی جا چکی ہیں۔ حمزہ پارٹی کے لیے کس قدر اہم ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ حالیہ کشمیر انتخابات میں مریم کی حکمت عملی سے ناراض حمزہ نے کسی انتخابی میٹنگ اور جلسے میں شرکت نہیں کی۔ حتیٰ کہ کسی کو فون تک نہ کیا۔ مریم نواز نے یہ چیلنج قبول کیا اور خاندان کو پیغام دیا کہ وہ اکیلی کشمیر کے انتخابات جیت کر دکھائیں گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور سے ہر بار مسلم لیگ ن کے امیدوار جیتتے آئے لیکن اس بار پی ٹی آئی جیت گئی۔ فرق حمزہ شہباز تھے۔
مسلم لیگ ن کے پنجاب میں چیف سٹریٹجسٹ رانا ثناء اللہ ہیں۔ رانا ثناء اللہ کہنہ مشق سیاستدان اور سخت جان مزاحمت کار ہیں۔ قانونی پیچیدگیوں کو کس طرح اپنے حق میں استعمال کرنا ہے، رانا ثناء اللہ اس سے واقف ہیں۔ برسہا برس سے انہوں نے خود کو ایسے ماحول میں اہم بنا رکھا ہے جہاں ان کے لہجے اور طرز عمل پر شدید تنقید ہوتی ہے۔ شریف خاندان جانتا ہے کہ یہ رانا ثناء اللہ ہیں جنہوں نے اب تک ماڈل ٹائون میں 14 بے گناہوں کی موت کا معاملہ فیصلے تک نہیں پہنچنے دیا۔ رانا ثناء اللہ انتخابی عمل، انتظامی رابطوں، درپردہ منصوبہ بندی اور جوڑ توڑ میں ماہر ہیں۔ وہ تکلفات میں نہیں پڑتے، فیصلے جٹکے طریقے سے کرتے ہیں، جو عملی سیاست سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس بات کا امکان نوے فیصد ہے کہ پارٹی تقسیم کی صورت میں رانا ثناء اللہ شہبازشریف کے ساتھ جائیں گے۔ مطلب یہ کہ مسلم لیگ م کے پاس سوشل میڈیا کے ناتجربہ کار لوگ، چند کالم نگار، جاوید لطیف اور پرویز رشید رہ جائیں گے۔ کالم نگاروں نے تو اپنا کام شروع بھی کر دیا ہے۔
پارٹی پر تکنیکی انداز میں اپنا کنٹرول رکھنے کا ایک اور طریقہ ہے۔ شہبازشریف بطور صدر پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ کا اجلاس بلائیں۔ پارٹی کو نئے سرے سے تشکیل دیں، نئی ایگیزیکٹو سے فیصلوں کی توثیق کروائیں، اس اجلاس میں پارٹی کے نئے عہدیداروں کا اعلان کردیں۔ جو ان کے ساتھ نہیں جائے گا وہ ڈسکوالیفائی بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کیسے ہو گا وہ خود جانتے ہیں۔ اپنی جماعت کی شناخت کے حوالے سے پیپلزپارٹی نے پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین کا جو تجربہ کیا شہبازشریف اس طریقہ کار سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے داخلی نظام اور دھڑے بندی سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں لگ بھگ تمام لیگی اراکین شہبازشریف کے ساتھ ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی لیگی اراکین کی اکثریت شہبازشریف کی وفادار بتائی جاتی ہے۔ شہبازشریف چودھری برادران، چودھری نثار علی خان اور اسٹیبلشمنٹ سے ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو خارجی اور معاشی چیلنجز لاحق ہیں۔ ریاست کو محفوظ اور معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو۔ مولانا فضل الرحمن تجربہ کار ہونے کے باوجود اسی باعث بے بس نظر آتے ہیں، مریم نواز اس بنیادی نکتے کو نہ سمجھ سکیں تو شہبازشریف حتمی فیصلہ اکیلے کرسکتے ہیں۔
کچھ احباب کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن متحد رہے گی اور آئندہ انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائے گی۔ ایسا سوچنے والے مسلم لیگ ن کے خیر خواہ ہیں اس لیے خود کو برے خیالات اور وہموں سے بچانے کے لیے اچھا اچھا سوچتے ہیں۔ حقائق بہت مختلف ہیں۔ آئندہ انتخابات ایک سال بعد ہوں یا دو سال بعد شریف خاندان کے متحد رہنے کی صورت میں امیدواروں کو ٹکٹ دینے پر شہبازشریف اور مریم کا جھگڑا یقینی ہے۔ مریم نواز کی سیاسی سرگرمیوں کی ساری رونق ان کا سوشل میڈیا سیل ہے۔ یہ سیل کس طرح کی حماقتیں کرتا ہے یہ کشمیر انتخابات میں سب نے دیکھا۔
جمہوری نظام پسماندہ معاشروں میں بڑی سست روی سے کام کرتا ہے لیکن اگر ووٹر خود اپنے اچھے برے کا خیال نہ کر سکیں تو قدرت کا اصول کارفرما ہو جاتا ہے، قدرت کا اصول یہ ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ پنجابی کا محاورہ ہے جو بنیا اوس ٹٹنا (جو پیدا ہوا اسے ایک دن فنا ہونا ہے) ہاں مسلم لیگ کے ٹوٹنے کی ایک وجہ پارٹی میں ایسے اہم افراد بھی ہو سکتے ہیں جو عورت کی سربراہی کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ سنا ہے اس نکتے پر مشاورت کا عمل شروع ہو چکا ہے۔