ہم ورزش کے دوران ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں، سیٹ۔ پنجابی میں ورزش کی ایک ہی حرکت کی تکرار کو بالا نکالنا کہتے ہیں۔ ایک سیٹ دس یا بارہ بالے نکالنے کا مجموعہ ہوتا ہے، میں نے عام فہم سمجھ کر سیٹ لکھا تو چینی مصنف کااعتراض آ گیا کہ یہ انگریزی لفظ ہے اس کا ترجمہ لکھیں۔ آخر مجموعہ لکھنا پڑا۔ دوڑ کی ایک شکل ریلے ہوتی ہے۔ ہم بچپن سے یہ دوڑ دیکھتے آئے ہیں۔ عام طور پر چار سو میٹر کی ریلے دوڑ میں ہر ٹیم کے چار کھلاڑی ہوتے ہیں۔ پہلا کھلاڑی ہاتھ میں ایک چھڑی کا ایک فٹ لمباٹکڑا لے کر دوڑتا ہے اور سو میٹر آگے کھڑے اپنے ساتھی کو پکڑا دیتا ہے، اگلے سو میٹر یہ ساتھی طے کرتا ہے۔ مجھے ریلے کی اصطلاح کا ترجمہ کرنا تھا۔ انگریزی اردو لغات سے کچھ مدد نہ ملی آخر ایک بزرگ دوست سے رابطہ کیا۔ بہت اچھا ترجمہ مل گیا۔ ڈاک چوکی۔ ساتھ ایک تاریخ سامنے آ گئی۔ پرانے وقتوں میں ڈاک کے ہرکارے ایک چوکی سے دوسری تک بھاگتے ہوئے جاتے اور ڈاک وہاں کھڑے ہرکارے کے حوالے کر دیتے، ڈاک چوکی کی دوڑ پرانے زمانے کی یہی یادگار ہے جسے کھیل بنا کر محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اولمپک مقابلوں میں ایسے کئی کھیل ہیں جو قدیم دور کے انسان کے رہن سہن کا حصہ تھے، شکار میں آزمایا جانے والا ہنر تھے۔ کھیل کے ذریعے تاریخ کو محفوظ بنایا گیا ہے۔
ایک مچھلی ہوتی ہے، گول سی، انگریزی میں اسے گلوب فش کہتے ہیں۔ یہ مچھلی پانی کے بہاو کے الٹ چلتی ہے۔ چینی مارشل آرٹس سے متعلق کچھ دستاویزات کا ترجمہ کرتے وقت گلوب فش کا نام آیا تو ایک بار پھر موزوں اردو لفظ کی تلاش ہوئی۔ معلوم ہوا فقہہ ماہی کہتے ہیں۔ ان ہی دستاویزات سے پتہ چلا کہ شاولن ٹیمپل چین میں ڈینگ فنگ کے شمال مغرب میں ہنان کے علاقے میں واقع ہے۔ اس علاقے میں میں شائوشی پہاڑی کے گھنے جنگل(لِن) میں واقع ہونے کی وجہ سے اس بدھ مندر کا نام شائولِن پڑ گیا۔
پاکستان میں چینی زبان سیکھنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ چینی حروف کے عناصرترکیبی میں سٹروک سب سے چھوٹے کردار ہیں۔ جس طرح انگریزی میں لیٹر اور اردو میں حروف کی حیثیت ہے۔ چین میں سٹروک کی وہی اہمیت ہے۔
ایک پرندہ ہے۔ کہتے ہیں یہ حقیقی نہیں صرف تصوراتی ہے۔ ایک خاص عمر کو پہنچنے پر یہ اپنے گھونسلے میں بیٹھ کر ایسی آواز نکالتا ہے کہ گھونسلے میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس آگ میں یہ پرندہ خود بھی راکھ ہو جاتا ہے۔ پھر اسی راکھ میں سے ایک نیا پرندہ جنم لیتا ہے۔ اس پرندے کو ققنوس کہتے ہیں۔ یہ تو خیر وہ الفاظ ہیں جو مجھے چینی مارشل آرٹس سے جڑی تاریخی، ادبی و ثقافتی لفظیات سے ڈھونڈنا پڑے۔ ترجمے کے عصری مسائل میں آپ گلاس، ٹیلی ویژن، تھرما میٹر، کی بورڈ، کیمرہ، ڈائون لوڈنگ وغیرہ کو بھی شامل کر لیں۔ گلاس کو سبو کیوں نہیں کہا جاتا، ٹیلی ویژن کو دور درشن درست کہا گیا، ٹیلی فون کو دور گو کہا جانا چاہئے، تھرما میٹر تپش پیما ہے، کی بورڈ تختہ کلید، کیمرہ کو عکسبندکہیں تو مناسب ہو گا، ہم لوگ مقتدرہ قومی زبان کی جانب سے کئے گئے تراجم کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مقتدرہ نے جب لائوڈ سپیکر کا ترجمہ آلہ مکبر الصوت کے طور پر کیا تو ہم اس مشکل نام پر تعجب کا اظہار کرتے رہے۔ سائنسدانوں، ڈاکٹروں، انجنئیروں اور وکلا کا مختلف زبانوں کو جاننا اور ان کے ادب کا مطالعہ اس لئے ضروری ہے کہ تمام شعبوں کے الفاظ مقامی مفاہیم و مطالب کے مطابق ترجمہ ہوتے رہتے ہیں۔ صرف ایک مترجم پر ان تیکنیکی شعبوں کی اصطلاحات کے ترجمہ کی ذمہ داری ڈال جائے تو ایسا ہی مذاق بنتا ہے۔
ٹیکنالوجی نے پچھلے تیس برس میں دنیا کی تمام زبانوں کے ذخیرہ الفاظ کو متاثر کیا ہے۔ ٹیکنالوجی قدرتی شے نہیں تمام دنیا کے انسان جس پر ملکیت کا دعویٰ کر سکیں۔ ٹیکنالوجی اختراع پر سرمایہ کاری سے وجود میں آتی ہے۔ سرمایہ کار کی جو زبان ہوتی ہے وہ اپنی مصنوعات کو اس سے اخذ نام دیتا ہے۔ جیف بیزوس ہوں یا ایلن مسک ہوں یا بل گیٹس، سب جو بنائیں، جو ایجاد کریں اس کے نام اپنی زبان میں رکھتے ہیں۔ اب ایک نئی چیز انگریزی جیسی بین الاقوامی زبان میں سامنے آئے گی تو آسانی کے ساتھ یہ نام معروف ہو جائے گا، اسے یوں سمجھ لیں کہ عربی ادب کے کردار سند باد اور علی بابا جس طرح انگریزی کا حصہ بن گئے۔
ترجمہ کے حوالے سے ایک مسئلہ یہ سامنے آیا کہ پاکستان میں مختلف علاقوں اور قوموں کے ہاں ایک شے کے مختلف نام رائج تھے۔ عام طور پر مقامی زبانوں میں ترجمہ کی روایت مدت ہوئی ختم ہو چکی۔ ایک سندھی زبان ہے جس میں کبھی بین الاقوامی مواد ترجمہ ہو جاتا ہے۔ پنجابی اپنے بہت بڑے ذخیرہ الفاظ سے اس وجہ سے دور ہو رہے ہیں کہ ریاست اس زبان کی حوصلہ شکنی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ پنجابی میں بہت سے نئے غیر ملکی الفاظ کا ترجمہ کرنے کی صلاحیت ہے لیکن ریاست ایسا نہیں چاہتی اس لئے پنجابی لسانیات پر کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، ہاں پنجابی صوفیاء ہیں جن کا کلام عام کرنا ریاست اور ریاستی اختیار استعمال کرنے والے جائز سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہم سب کو ان بابوں کے کلام کے سوا پنجابی زبان کی دیگر علمی جہات کا علم نہیں ہو پاتا۔
علمی تحقیق کے نام پر ہماری یونیورسٹیوں میں مغربی علوم، لفظیات اور افکار کو عام کیا جاتا رہا ہے، سکالر شپ کہنے کو مدد ہوتی ہے لیکن اس کی قیمت فکری تبدیلی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ وہ وقت آیا چاہتا ہے جب چینی حکومت اور ادارے چینی علوم کے اردو میں تراجم شائع کرنے کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ ہمیں چین سے معاشی رابطوں کے ساتھ لسانی رابطوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ چینی شاولن، یوکوآن، کی گونگ سمیت بہت سے الفاظ ہماری لغت میں شامل ہو رہے ہیں۔ تعلق میں توازن ہم ہمیشہ کھو دیتے ہیں۔ الفاظ کے معقول اور پر معانی متبادل تلاش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہ کی گئی تو عربی، فارسی اور انگریزی کے بعد اردو میں چینی الفاظ کی جو ملاوٹ ہو گی وہ ہماری زبان کی حرکات کو ہی نہیں ہماری تہذیب کو بھی متاثر کرے گی۔ غیر ملکی زبانوں کو سیکھنا اور چیز ہے، ان کے سامنے لسانی شکست تسلیم کر لینا اور بات۔