Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Phir To Wo Jaan e Haya Aisa Khula, Aisa Khula

Phir To Wo Jaan e Haya Aisa Khula, Aisa Khula

دم بھر جو ادھر منہ پھیرے، او چندا، میں ان سے پیار کر لوں۔ یکے بعد دیگرے آنے والی ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے مشہور لوگ بدنامی سے نہیں ڈرتے۔ چند ماہ ہوئے ایک نہایت حسین اداکارہ کی فحش ویڈیو گردش کرنے لگی، چند روز کے بعد ایک اور ڈرامہ ہیروئن کی وڈیو آ گئی، پھر تیسری خاتون اداکارہ کی ویڈیو ایک سے دوسرے موبائل پر منتقل ہونے لگی۔ ابھی دو ہفتے ہوئے ایک خاتون سیاستدان کی ویڈیو پہنچی، جنگل کو آگ لگی ہی تھی کہ ایک اور نمایاں سیاستدان کی مختلف خواتین کے ساتھ ویڈیوز کے ٹوٹے تیزی سے پھیلنے لگے۔

ہمارا سماج اپنی اقدار کے حوالے سے بے حسی کے ٹیکے لگوا رہا ہے۔ ہم ذاتی زندگی اور اجتماعی زندگی کے درمیان حائل پردے کو نوچ رہے ہیں، اکثریت جنونی اور وحشی ہو چکی ہے۔ مینار پاکستان سے لے کر اسلام آباد کے ہوٹل تک ایسے قصے پھیلے ہوئے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ یقینا سماج کی اقدار توڑ پھوڑ کے عمل سے گزر رہی ہیں، نئی نسل مغربی لباس کی طرح مغربی روایات کو قبول کر چکی ہے۔ سکول اور کالج کے اوقات میں کسی تفریحی مقام اور پارک میں جا کر دیکھ لیجیے آپ کو یورپ کے متعلق سنی باتیں سامنے بیٹھی نظر آئیں گی۔

ایک جاننے والے صاحب ہیں، ٹیکنالوجی کی دنیا میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کچھ واقف۔ ہم نے پوچھا کیا کوئی بلیک میلر گروہ سرگرم ہے؟ یہ اہم لوگ خود اپنی ویڈیو نشر کر رہے ہیں؟ کیا ان کے مخالفین ایسا کر رہے ہیں؟ کیا چند سیاسی شخصیات ایسا کروا رہی ہیں جو سب کی قابل اعتراض ویڈیو رکھنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں؟ یا پھر کوئی اور وجہ ہے۔

جن صاحب سے سوال کئے وہ صرف ٹیکنالوجی کے ماہر نہیں، سماجی اورسیاسی حرکیات سے بھی واقف ہیں۔ بولے:میرے خیال میں کوئی ایسے گروہ متحرک ہیں جو کسی کا ٹیلی فون دوسرے ملک میں بیٹھ کر ہیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ بند کئے گئے فون کو سینکڑوں کلو میٹر دور بیٹھ کر کھول سکتے ہیں اور کیمرہ آن کرنا ان کے بائیں ہاتھ کی بات ہے۔ یہ لوگ جب کسی فون کو ہیک کرتے ہیں تو تمام ڈیٹا ان کی رسائی میں آ جاتا ہے، فون میں موجود فیملی تصاویر، ویڈیو اور پیغامات کو چرا لیا جاتا ہے۔ ان کے پاس ٹیکنالوجی کا جال ہے جس میں پھنسی مچھلیوں کا ڈیٹا دیکھ کر یہ اپنے مطلب کا مواد نکال لیتے ہیں۔ لوگ تفریح طبع کے لئے جو بالکل ذاتی قسم کی تصاویر اور ویڈیو بنا لیتے ہیں وہ کسی بھی وقت ان ہیکروں کے ہتھے چڑھ سکتی ہیں۔ یہ سب خوفناک ہے۔

معاملے کو ایک بار پھر سماجی سطح پر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے اردگرد دیکھئے کون سے لوگ معاشرے میں نمایاں ہو کر ابھرے ہیں۔ لگے ہاتھوں اس بات کا تجزیہ بھی کرتے جائیں کہ ہم عام معنوں میں کس شخصیت کو کامیاب قرار دیتے ہیں۔ پھر خود سے سوال کریں کہ ہم نے اپنی سماجی سوچ میں کن تبدیلیوں کو کس کس حد تک قابل قبول سمجھ لیا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ غریب خاندان کا فرد ایسی ویڈیو لیک ہونے پر خودکشی کیوں کرتا ہے اور دولت مند تنظیم سازی کی ڈھال کس آسانی سے استعمال کر لیتا ہے۔

مجھے یقین ہے میری طرح جس کے پاس بھی ان میں سے چند ویڈیو آئیں، اس نے پہلے خود نشست و برخاست کا جوڑ جوٹ ملاحظہ کیا اور پھر اپنے جیسے کسی ماہر کو تجزیہ کے لئے آگے بھیج دی۔ سوشل میڈیا تو فوراً ٹرینڈ چلا دیتا ہے۔ گویا وہاں شادی کرنے والے بیٹھے ہیں جو بنا کسی معاوضے کے لوگوں کی خوبیاں اپنی رائے کے ساتھ آگے پھیلاتے جاتے ہیں۔

ہم بس چلتا ہے تو یہ کہہ کر فرض پورا کر لیتے ہیں کہ موبائل نے نئی نسل کو تباہ کر دیا۔ بھئی آنکھیں کھولیں۔ ان ویڈیوز میں سب پرانی نسلیں ہیں، کچھ کے تو بال بھی سفید ہو چکے ہیں۔ ہماری ایک لیڈی رپورٹر ہوا کرتی تھیں۔ مرحومہ بابرہ رضوی بڑی خوبیوں کی مالک تھی۔ ایک روز بتانے لگی!سر میں اپنے نوجوان کولیگز کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ جاتی ہوں۔ یہ بہت خیال رکھتے ہیں لیکن زیادہ عمر کے لوگ خوامخواہ بریکیں لگانے لگتے ہیں۔

میاں نواز شریف کو 1999ء میں جب گرفتار کیا گیا تو انہیں چکلالہ کے ایک ریسٹ ہائوس میں نظر بند کیا گیا۔ ایک حاضر سروس افسر میرے تازہ تازہ دوست بنے تھے۔ ایک دن بتانے لگے کہ میاں صاحب کے کمرے سے کچھ خاص فلمیں، میگزین اور ادویات برآمد ہوئی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مجھے بطور صحافی ان معلومات سے دلچسپی ہو گی اور میں اسے رپورٹ کروں گا۔ میں نے واٹر بیڈ سمیت ساری تفصیلات سنیں اور خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ بعد میں ایک صحافی نے یہ نے یہ ساری معلومات نمک مرچ کے ساتھ شائع کر دیں۔ بعد میں یہی صاحب نواز شریف کے آخری دور حکومت میں خوشامدی رپورٹنگ میں نامور ہوئے اور ان کا منہ ہمیشہ موتیوں سے بھرا ہوا دیکھا، لاجواب شاعر رسا چغتائی نے کیا منظر کھینچا:

صرف مانع تھی حیا بند قبا کھلنے تک

پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا

نئی ویڈیو لیکس کے منتظر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں میں ایسے خواتین و حضرات کی کمی نہیں جن کی ویڈیو کسی وقت بھی منظر عام پر آ سکتی ہیں، لوگ فرشتوں کے کہنے پر جب پکڑے جائیں گے یہ تب کی بات ہے۔ فوری مسئلہ سائبر سکیورٹی کا ہے۔ ساتھ یہ معاملہ بھی کہ ہم ٹیکنالوجی کو دوست بنا رہے ہیں یا پھر ٹیکنالوجی ہمیں غلام بنا رہی ہے؟